848

حب دنیا اور اس کے نقصانات

فی زمانہ مادہ پرستی نے ہماری دنیا سے حب کواس قدربڑھادیاہے کہ ہم لمحہ ننانوے کے چکر میں بلکہ ہزاروں کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں جبکہ اللہ رب العزت نے دنیاکوحقیر ٹھہراتے ہوئے اسے مچھر کے پر سے بھی زیادہ ذلیل اور حقیر قرار دیا نیز یہ بھی فرمایا کہ اگر اس دنیاکامیرے ہاں کچھ مقام ومرتبہ ہوتاتو میں کافروں کوایک گھونٹ پانی بھی نہ دیتا۔قرآن مجید نے بھی بے شمار مقامات پر ایسے لوگوں کی مذمت فرمائی ہے جن کااوڑھنابچھونا دنیاہے۔ اللہ نے ان بندوں کوسمجھانے کی خاطر باربار تنبیہ کی کہ دیکھودنیادھوکے کاگھر ہے اس کے فتنے میں نہ پڑو اس کی ظاہری چمک دمک سے مرعوب نہ ہوجاؤ۔ساتھ ہی یہ بھی ارشاد فرمایا کہ کفار کی دنیوی ترقی کودیکھ کرکسی بوکھلاہٹ کاشکارنہ ہوجانا۔
مگرہم نے ان تمام فرامین کوپس پشت ڈال کردنیا کی محبت میں اپنے آپ کواتنا غرق کرلیاہے کہ ہم ہرمقام پر کفارکے چاند ستاروں پر جاپہنچنے کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے ہمارایہ کہنا کہ دیکھو کفار کتنی دور نکل گئے ہیں گو یااللہ رب العزت سے اختلاف کرناہے۔
حضور ﷺ نے حب دیناکو وھن سے تشبیہ دی ہے اور فرمایاہے کہ جب تم وھن میں مبتلاہوجاؤگے توایسے ذلیل ہوجاؤ گے کہ دنیاکی دوسری قومیں تم سے کھیلیں گی اور تمہیں نوچ نوچ کرکھائیں گی۔
مسلمانوں کی عزت اور غلبہ جہاد سے ہے اور جہاد کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ یہی حب دیناہے جوڈراتی اور خوفزدہ کرتی ہے کہ تیرے گھر کاکیابنے گا؟تیرے بوڑھے والدین کی خدمت کون کرے گا؟تیری بہنوں کی شادیوں کی ذمہ داری کون لے گا؟بڑاپختہ اور شاندار مکان کون بنائے گا؟عزت،شہرت اور ناموری کے میدان میں نمایاں کامیابیاں کون حاصل کرے گا؟اور بندہ محض ریت کی دیوار بن کربیٹھ جاتاہے بس اتنا نہیں بلکہ حب دنیا اسے نہایت مصلحت پسند اور بزدل بنادیتی ہے وہ حکمرانوں کی طرح غیروں کی زبان بولنے لگتاہے کہ سارے جہاں کاٹھیکہ صرف میں نے لیاہواہے؟کیامیں ہی اکیلامسلمان ہوں اس دنیامیں؟جس پر جہاد وقتال فرض ہے باقی سب تو مزے کررہے ہیں اور میں کیوں اپنی زندگی کی مسرتیں ختم کرنے پرتلاہواہوں؟
اس مال اور دنیاکی حب نے صرف ہمیں ہی اپنا اسیر نہیں بنایا بلکہ حضورﷺ کے مبارک زمانے میں بھی لوگ اس کے بہکاوئے میں آجاتے تھے آپ کووہ منظر تو یادہوگاناں جب آقامدنی ﷺ کی خدمت اقدس میں کچھ مال آیا اور آپﷺ نے اسے تقسیم فرمادیا وہاں مال حاصل کرنے والوں میں حب دنیا میں بری طرح جکڑے ہوئے بدنصیب افراد بھی شامل تھے جن کی گندی زبانوں نے نعوذباللہ حضورﷺ کی غیبت کرتے ہوئے یہا ں تک بک دیاکہ حضورﷺ اللہ کی رضا کے مطابق مال تقسیم نہیں فرماتے (العیاذ باللہ)۔
حب دنیا بڑھتی رہے گی تو لالچ،حرص اور طمع بھی بڑھتے رہیں گے اورایک ایسا وقت آن پہنچے گا جب ہم اللہ کے باپسندیدہ فرد قارون کی طرح یہ کہنے لگیں گے کہ یہ مال تو میری ذاتی محنت اور مشقت کی وجہ سے اکٹھاہوا ہے اس میں سے صدقہ،زکوٰ ۃٰ یاکسی مسکین کوکیسے حصہ دوں؟کیونکہ ہمیں یہ زعم ہوجائے گا کہ یہ تو میری خالص محنت اور لگن کانتیجہ ہے۔
حب دنیا کاایک اور بڑانقصان یہ بھی ہے کہ جب یہ بڑھتی ہے تو مساکین اورغربا ء حقیرلگنے لگتے ہیں اور ہمارا معیار، کسوٹی،پیمانہ ہی دولت،دولت مندہوجاتے ہیں۔آج کے زمانے میں دیکھ لیں عزت کامعیار ہی دولت رہ گیاہے خواہ وہ زناکی کمائی ہو یاشراب کی۔شرافت ایمانداری اور تقویٰ والے لوگ ہمارے نظروں کو جچتے ہی نہیں ہیں۔
ابو جہل اوردیگر کفار بھی حضور ﷺ کے پاس آتے اور کہتے کیا ہم ان غریبوں کی طرح مسلمان ہوجائیں جن کے پاس کھانے اور پہننے کوکچھ نہیں بلکہ ان کی سرکشی اس حد تک بڑھ گئی کہ کہنے لگے کہ فلاں فلاں غریبوں کواپنی محفل سے اٹھا دیں تو ہم بھی آپ ﷺ کی بات سن سکتے ہیں۔حب دنیا نے پھر ان لوگوں کواتنا اسیر کرلیا کہ معرکہ بدر میں جب صحابی ؓ نے ابوجہل کی گردن تن سے جداکرنی چاہی تو بول اٹھا کہ میری گردن ذرانیچے سے کاٹنا تاکہ کٹی گردن دیکھ کرپتہ چلے کہ کسی سردارکاسرہے؟اللہ اکبر واصل جہنم ہونے سے چندلمحے پہلے تک بھی اس قدررعونت، کبر اور تکبر۔کیاایسے لوگ ہمیشہ دکھ اور تکلیف دینے والے عذاب کاشکار نہیں بنے رہیں گے؟
حب دنیامال بڑھانے کی ترغیب دیتی ہے مال بڑھنا چاہیے،عہدہ بڑھنا چاہیے، واہ واہ ہونی چاہیے کسی حقدار کاحق مارناپڑتاہے پرواہ نہیں کسی یتیم بیوہ کی جائیدادہڑپ کرنی پڑتی ہے کوئی مسئلہ نہیں۔بس عہدہ،اختیار،اقتدار،شہرت اور دولت میرے گھر کی لونڈی بن جائیں۔ایمان جاتاہے جانے دیں رشوت دینی پڑتی ہے حلال ہے۔
یہ سب دلیلیں اتنی مضبوط لگتی ہیں کہ بندہ ان کااسیر ہوکراپنے رب کی پکڑ،آخرت کی فکر سے لاپرواہ ہوکرمکان بڑاکرنے،گاڑی لینے،پلاٹ خریدنے،بچوں کی تعلیم مکمل کرنے اور اس طرز کے دوسرے بکھیڑوں میں پڑارہتاہے کہ مہلت ختم ہوجاتی ہے فرشتہ بلاوا لیکر آن پہنچتاہے۔پچھتاوے بھری زندگی کاخاتمہ ہوجاتاہے۔
صاحب بہادر میت اور مردہ کاروپ دھار لیتے ہیں۔پہلے غسل سے قبل زمین،مکان، بینک بیلنس تک کے حساب ہونے لگتے ہیں۔بیوہ سے لیکر بچوں تک سب اپنے اپنے نفع کے چکر میں پڑ جاتے ہیں۔اور جسے اگلے جہان ان سب کی دعاؤں کی اشد ضرورت ہوتی ہے،صدقے کی ضرورت ہوتی ہے صالح اولاداور ان کے صالح کاموں کی ضرورت ہوتی ہے وہ اپنے کاموں اور اسی مرحوم کی طرح حب دنیا اور ننانوے کے چکرمیں اس بالکل بھول جاتے ہیں اور صاحب بہادر اللہ کے مقرر کردہ فرشتوں سے مارکھاتے اور اپنی حب دنیا والی زندگی پرپچھتاتے رہتے ہیں۔لیکن ایک دفعہ مہلت ختم ہوجائے تو پھر دوبارہ کوئی موقع نہیں کوئی چانس نہیں…………………….؟
لہذا آئیے اپنے رب سے مہلت ختم ہونے سے قبل حب دنیا سے بچنے اور اس کے مقرب بننے کی دعاکریں۔آمین
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں