299

دے رو……………………اور لے داد

تحریر:مدثریوسف پاشا بانی وسرپرست اعلیٰ
بزم شعر وسخن تحصیل سماہنی
ادبی نشست میں باقاعدگی آنے سے ہماری سستی،کاہلی پھرتی،چستی اور آج کرو،ابھی کرو میں تبدیل ہوتی جارہی ہے۔ نہ کوئی سننے والا، نہ تنقیدکرنے والا،نہ داد دینے والا جب یہ ماحول ہوتو نثری کاوش بھی اڑن چھوہوجاتی ہے چہ جائیکہ شعری سخن جس کے لیے ایک خاص ماحول درکارہوتاہے۔ لیکن بھلاہوہمارے دوعزیزوں کاکہ کم ازکم ایک غزل، ایک نثرپارے تک تو ہمیں زبردستی لے ہی آئے ہیں کہ اس کے بغیر کسی صورت گزارانہیں۔ احباب کے اخلاص، نیک نیتی کی وجہ سے خود ہمیں مقررہ دن،تاریخ کاشدت سے انتظاررہتاہے کیونکہ ماحول نہ ہونے کی وجہ سے ماضی میں بہت سے شعراء وادباء گمنامی کے اندھیروں میں گم ہوگئے ہیں۔
بزم کامقام بروٹھیاں تھا اور بہت سے دوست اس کامحل وقوع پوچھ رہے تھے خاص طور پر وہ احباب جنہیں حلقے بھر سے واقفیت کازعم ہے۔یقینا ہردفعہ نئی جگہ دیکھنے سے ہمیں اپنے علاقہ کی خوبصورت جگہیں دیکھنے کاموقع بھی ملتارہے گا۔ کیونکہ ان جگہوں کو دیکھنے کے لیے کسی خاص سرمایے کی ضرورت ہرگزنہیں بس ارادے کی پختگی ذوق کوتسکین دینے کے لیے کافی ہے۔
بروٹھیاں کے پارک اور خوبصورت جنگل کارومان پرور نظارہ آنکھوں میں بسائے سو گئے لیکن چاربجے بارش نے زبردستی جگادیا اور جاگتے ہی پہلے جس خیال نے پرواز بھری وہ یہی تھا کہ ہماری آج کی بزم کاکیابنے گا؟متبادل کاتو سوچ رکھاتھا لیکن غیرسنجیدہ سے تھے کیونکہ من نئی رومان پرور جگہ جاکر گھڑیاں بتانے کاطالب تھا۔ لیکن
دشمن جس کاآسماں ہو
پھر اس کی کوئی تدبیر ثمرآور نہیں ہوتی۔ بزم کی تبدیلی میں قدرت کااختیار تر سامنے نظر آرہاتھا لیکن پس منظر میں راشد بھائی کی کالی زبان کاچمتکار بھی بول بول کرحقیقت سے پردہ اٹھارہاتھا۔
بادل نخواستہ پونے آٹھ بجے چوکی آن پہنچے اور گرین کالج کے چابی بردار کابے تابی سے انتظارکرنے لگے۔
لمحوں نے خطاکی صدیوں نے سزاپائی کے مصداق وقت کی پابندی کے بھاشن ن بڑی بری طرح پھنساکرمروایا۔ کہ
اووروں کونصحیت اور خود میاں فصحیت۔
کنجی بردار ملا لیکن ادبی ماحول کی عکاسی کرنے والی دریاں، چٹایاں جیسے گدھے کے سرسے غائب سینگوں کی طرح ہمارامنہ چڑارہی تھیں۔ ناچار پروفیسرعزیز صاحب کی آگ برساتی نگاہوں سے بچنے اور کچھ کارگزاری ظاہرکرنے کے لیے کرسیاں لگاکربزم کاآغازکیاگیا۔
پہلی بزم کے انعقاد سے قبل احباب خصوصاً شعراء کے نہ پہنچنے اور بے عزتی ہوجانے کاخوف اس قدر خوداعتمادی میں تبدیل ہوچکاہے کہ خدانخواستہ کوئی بھی نہ آئے تو اکیلے اپنے سامنے مائیک رکھ کرکلام سناکر،جی بھر کے داد دینے اور خوش خوش لوٹ آنے کوجی چاہتاہے۔ ہماری اس ادنیٰ سی کاوش کامقصد بھی بس یہی تھا کہ ویلی سماہنی کے شعری،نثری ذوق رکھنے والے دوستوں کوایسا ماحول میسر ہو کہ وہ بلاجھجک اپنے خیالات کااظہار بھی کرسکیں اور ان کے کلام کوزبان وعروض کے زیور سے سجا کر جب عوام وخواص کے سامنے پیش کیاجائے تو قبول عام کی سند حاصل کرکے ابدی ودائمی شہرت کاحق دار ٹھہرے۔
ہربزم میں نئے چہرے دیکھ کردلی خوشی ہوتی ہے کہ محنت ٹھکانے لگ رہی ہے،پیسے وصول ہونے شروع ہوگئے ہیں۔ 2016؁ء میں جب بندہ نے تحقیق کے گھوڑے کو دوڑانا شروع کیاتو بہت کم لوگوں کے کوائف (کلام،تصویرودیگر) میسرآسکے تھے لیکن آج بنڈالہ سے پونا تک ہر وہ فرد جس میں شعر وسخن کے جراثیم موجو دہیں وہ ہماراساتھ دے،اصلاح لے (دونوں عزیزوں سے) اور مشق سخن جاری رکھے تو ان شاء اللہ کل ضرور ادب سماہنی کاچمکتاستارہ بن کرفیض عام کاسبب ہوگا۔
شعراء تو گانے،باجے غرض میت والے گھر بھی اپنی سنانا اور داد حاصل کرناچاہتے ہیں انہیں تو آگے بڑھ کر بزم کی رونق میں اضافہ کاسبب بننا چاہیے لیکن سلام ہے ہمارے ان دوستوں (انور راوء صاحب، طارق پرویز صاحب) پر کہ جو گن گن کر دن گزارتے ہیں اور دوسروں کو موقع دیئے بغیر میزبانی کے فرائض سرانجام دے کر شاداں وفرحاں نظر آتے ہیں۔
اس موجودہ بزم میں تو انور راؤ صاحب نے اشعار سنا کر گویا اس بات کی تصدیق کرڈالی ہے کہ
وہ ایک شخص کہ شاعر بناگیامجھ کو
بزم کے علاوہ جہاں کہیں بیٹھے ہوں وقت گزرنے کانام نہیں لیتا لیکن شعراء کے کلام کی برکت سے تین چار گھنٹے کی نشست کے اختتام پر بھی یہی جی چاہتاہے کہ
ساقیا اور پلااور پلا اور پلا
بلاشبہ فی زمانہ سوشل میڈیا کو جادو سرچڑھ کربول رہاہے اور ادبی ذوق رکھنے والے احباب ہماری نشست کے بے تابی سے منتظر رہتے ہیں۔ ان سب کاجی چاہتاہے کہ LIVE دیکھنے کوملے اگر بوجوہ ایساممکن نہ ہوسکے تو ویڈیوز سے کم کسی چیز پر سمجھوتاکرتے نظر نہیں آتے۔ امیدہے کہ س دفعہ ان سب کاویڈیوز اپ لوڈ نہ کرنے کاگلہ اپنی موت آپ مرجائے گا۔
یہ ٹوٹے پھوٹے الفاظ قرطاس پر نہ بکھرتے اگر عزیزم خورشید حسن اور شہباز حبیب نیز شہاب عباس پہلے ہی بزم کاآنکھوں دیکھا حال بیان نہ کرچکے ہوتے اور بندہ کو دونوں انگھوٹھے (ہن رام ای) کے معنوں میں نہ دکھارہے ہوتے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں