666

مقبوضہ کشمیر کی اصلی تصویر

مقبوضہ کشمیر کی اصلی تصویر
بہت سے لوگ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ آزادکشمیر میں توپاکستان نے برائے نام سہولتیں دے رکھی ہیں جبکہ مقبوضہ کشمیر میں توبھارت نے کشمیریوں کوزندگی کی ہر ایک سہولت دی ہوئی ہے۔آج کی نشست میں اسی سچ کو حقائق کی روشنی میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ دریائے سندھ کے علاوہ مقبوضہ کشمیر سے نکلنے والے دیگر دریاؤں کارخ بھی پاکستان کی طرف ہے سندھ طاس معاہدے کی رو سے دریائے راوی،ستلج اور بیاس کاپانی بھارت کے استعمال میں ہے۔بھارت کی حکومت دیگر دریاؤں (نیلم،جہلم اور چناب) پر سرعام ڈاکہ زنی کی مرتکب ہورہی ہے۔پاکستان کے پانیوں پرمسلسل ڈیم بناکر اسے بنجر بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ان حقائق سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر دنیاکے ان خطوں میں سے ہے جہاں نہ صرف وافر پانی موجود ہے بلکہ اسے دریاؤں کی سرزمین بھی کہاجاتاہے۔
اس وافر پانی کی وجہ سے چاہیے تو یہ تھا کہ زرعی اعتبار سے مقبوضہ وادی کی زمین سونااگلتی،دریاؤں اور نہروں سے بڑی مقدار میں بجلی پیداکی جاتی اور بجلی کی مددسے ہرطرف
صنعتی ترقی اور خوشحالی کادوردورہ ہوتا لیکن وہ برہمن ہی کیا جودوسرے خصوصاً مسلمانوں کے فائدے کی بات سوچے۔ویسے بھی برہمنوں کومسلمانوں کی جگہ سرزمین کشمیر کی ضرورت ہے۔بہتے ندی نالوں،زرخیز زمینوں،قیمتی معدنیات سے بھرے جنگلوں کے باوجود مقبوضہ کشمیر کامسلمان آج بھی غریب،پسماندہ اور مفلوک الحال ہے۔
63سالوں میں مقبوضہ کشمیر نے سب سے زیادہ ترقی قبرستانوں میں کی ہے ان سالوں میں بھارتی فوج کے ہاتھوں لاکھوں کشمیر ی شہیدہوئے ہیں۔ہرآنے والی بھارتی حکومت نے کشمیریوں کااستحصال کیا آبادیوں کو کھنڈروں میں تبدیل اور قبرستانوں کوآباد کیا۔صرف 1990ء کی تحریک کے نتیجے میں بننے والے قبرستانوں کی تعداد 700سے زائد ہے اور وہ جگہیں جہاں دوچار پانچ افراد مدفون ہیں کاشمار نہیں۔
کشمیر ی اپنی سرزمین پراجنبی ہیں معاشی،سماجی،صنعتی اور زرعی اعتبار سے ان کاگلا گھونٹ دیاگیاہے ہرطرف پسماندگی اور غربت کادوردورہ ہے۔وسائل سے بھری ریاست کی 70فی صد اکثریتی آبادی ان وسائل کواستعمال نہیں کرسکتی۔مقبوضہ وادی میں برہمن کی لوٹ کھسوٹ کابازار گرم ہے۔اور نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ بھی چیخنے چلانے پر مجبور ہوگیاہے ساتھ ہی میڈیا بھی بھارتی عنایات کابھونڈا پھوڑ رہاہے۔
ماہرین کے بقول مقبوضہ وادی کے جنگلات اورمعدنی وسائل سے قطع نظر آبی وسائل کوہی صحیح طریقے سے استعمال کیاجائے توکوئی وجہ نہیں کہ ریاست کی کایاپلٹ جائے۔مگر زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ صنعتی ترقی تو خواب ٹھہری سال بھر ریاست کے عوام بجلی کوترستے رہتے ہیں کہیں دن کوموم بتیاں جلاکراحتجاج کرتے ہیں مگر بھارت کی کٹھ پتلی انتظامیہ پرکوئی اثر نہیں ہوتا۔ وادی میں پانی وافر مقدار میں موجودہے اور بارشوں کے موسم میں ڈیم لبالب بھرجاتے ہیں لیکن کشمیری سارا سال لوڈشیڈنگ کاعذاب سہتے ہیں۔
صنعتوں اورکارخانوں کے نہ ہونے کی وجہ سے ہزاروں لوگ بے روزگارہیں اورجوچھوٹے موٹے کارخانے موجودہیں وہ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے خسارے کاشکارہیں اور سردیوں میں جب یہ معاملہ بڑھ جاتاہے تو چھوٹے کاریگر بے روزگارہوجاتے ہیں اور یوں نوبت فاقوں تک پہنچ جاتی ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نے اپنے رہ میں وادی کواضافی بجلی کی فراہمی کاجووعدہ کیاتھا وہ محض کاغذی ثابت ہواہے اور برہمن کے زیر تسلط جنت نظیر کشمیر کے مسلمان سخت مفلوک الحالی کی زندگی گزاررہے ہیں۔
یہ صرف بجلی کی کہانی ہے دیگر ضروریات زندگی یعنی صحت،تعلیم اور انفراسٹرکچر کابراحال ہے۔وسائل کے باوجود سہولتوں کی کمی نے مقبوضہ وادی کے مسلمانوں کے دلوں میں برہمن کی نفرت میں مزید اضافہ کردیاہے اوران کاہر گزرتا دن بھارت سے آزادی کے جذبے کوتقویت بخش رہاہے اور انشاء اللہ وہ دن دورنہیں جب کشمیر ی آزادفضاؤں میں سانس لیں گے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں