baz me sher o sukhan 282

چھکا

مدثریوسف پاشا
31جولائی وہ تاریخی،یادگار اور شکرانے بھرادن ہے جس کے اختتام پر ڈاکٹر حافظ خورشید حسن باضابطہ طور پر اپنی تعلیم وعملی مشق مکمل کرنے کے بعد معالج بن گئے۔ ڈاکٹر مذکور کے لیے تو اس دن کی اہمیت ہمیشہ رہے گی لیکن خصوصاً بالخصوص خاکسار کواللہ رب العزت نے جس کرم سے نوازاہے وہ ہر وقت الحمدللہ کی تسبیح کواوڑھنا بچھونا بنالینے سے ہرگزاداہونے والانہیں ہے۔ گمان یہی تھا کہ حافظ خورشید 10 اگست کے بعد چند دنوں کے لیے آئیں گے تو ان کی تعلیم کی تکمیل پر شکرانے کی محفل سجائیں گے۔لیکن وہ خلاف توقع ۵ اگست کو آن وارد ہوئے اور چھوٹتے ہی بولے کل جمعہ کی نشست رکھ لیں جتنے احباب باآسانی شریک ہوسکتے ہیں ان کے ساتھ مل بیٹھ کرمجھے کل رات کی گاڑی سے واپس لاہور پہنچناہے۔ شہباز نے اپنے تمام ذرائع بروئے کار لاتے ہوئے سہہ پہر چار بجے سبزپیر کے مقام پر مل بیٹھنے کے پیغامات سے دل دہلادیے۔ کچھ دوست تو بوجوہ شریک نہیں ہوسکے لیکن صدر تنظیم کی مسلسل غیر حاضری نے دل کو بہت افسردہ کیا۔ ان کے ساتھ ہی دوعلم دوستوں محمدانورراؤ، باؤمحمدرزاق کی کمی بھی شدت سے محسوس ہوئی لیکن ہم نے دل کو بادل نخواستہ راضی کرہی لیا۔
بھلاہوشیخ نجم کاوہ ہماری ڈھارس بندھانے کے لیے پیٹ کے عارضہ میں مبتلاہونے کے باوجود تشریف لے آئے۔ ان کی برکت سے پہلی دفعہ امجدعزیز کاشر، ڈاکٹر محمداسحاق چودھری اور فہدالیاس بھی محفل کاحصہ بنے۔ گو کہ وقت چار بجے کاطے تھا لیکن چوکی چھوڑتے چھوڑتے پانچ بج گئے۔ بس جلدی سے جگہ کاانتخاب کرکے براجمان ہوگئے۔ کہ مزید دلیری کایارا نہ تھا،نہ ہی نجمی آنکھوں کے تیر سہنے کی ہمت وطاقت تھی۔ عامرریاض، خرم صاحبان نے بھی جھلکی دکھائی اور حلقہ کی بجلی کی طرح غائب ہوگئے۔ دل نے کہا غیرحاضرو! ضرور بعد میں ویڈیوز دیکھ کر پچھتاؤ گے اور ہم بھی زیر لب مسکراتے رہیں گے۔
صدات کاتاج شیخ موصوف کے سرپرسجا۔ ویسے ہی آنجناب کے نام نامی سے ایک شعر یاد آگیاہے۔
تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑیں تو فرشتے وضوکریں
ویسے تو ہمارے پڑوس کے شیوخ کے بارے میں بہت سے لطائف مشہور ہیں لیکن چونکہ ہمارے غاریار وہ والے شیخ نہیں ہیں ویسے بھی غار یار اتنی خوبیوں کے مالک ہیں کہ انہیں ایک نشست میں سمونا کم ازکم بندہ کے بس میں نہیں ہے۔ تلاوت،نعت،تحریر اور تقریر یہی تو مشکل میدان ہیں جن کے شیخ مذکور قبل ازیں شہسوار ہیں۔ اللہ ان کے علم وعمل میں برکت عطافرمائے آمین
شہباز حبیب نے اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے حافظ جی کوتلاوت کلام پاک کی دعوت دی جسے انہوں نے کمال استادی سے شیخ نجم کے کھاتے میں ڈال دیا۔ رب العزت کے بابرکت نام اور آنحضرت ﷺ کی ذات والا صفات پر عقیدت کے پھول نچھاور کرنے کے بعد مجلس کے قواعد کے مطابق شہباز حبیب نے اپنے کلام سے آغازکیا۔
ہجر کے پرسوزلمحوں میں گھٹاجاتاہے دل
مثل شمع صبح میراتوہواجاتاہے دل
تو شیخ مجھے کنکھیوں سے دیکھنے لگے گویاکہہ رہے ہوں ”کچھ کرگزریں کہیں دیرنہ ہوجائے“ ویسے ہمیں ان سے زیادہ اپنے رب پر یقین ہے کہ وہ ان کی حفاظت فرمائے گا اور اشعار کی وارداتوں کو حقیقت میں بدلنے کاموقع نہیں دے گا۔
ازاں بعد ۲۲۱۱ میں اپنے فرائض سرانجام دینے والے نوجوان شاعر غلام غوث چودھری کوسخن وری کی دعوت دی گئی
رقیبا حکومت ہے جس پر تری اب
میں اس دل کاحاکم تھاکچھ سال پہلے
ایماندارانہ رائے ہے کہ مذکور جس تیزی سے شاعری کی باریکیوں کو سمجھنے اور اپنی بات میں نت نئے خیالات پیداکرنے لگے ہیں اگر ان کی مشق سخن جاری رہی تو وہ ضرور اپنا اچھا تاثر پیداکرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
سوناویلی کی مردم خیز وسونامٹی کے باسی محمدنعیم رضا آج بھی مروت میں میزبان بنے بیٹھے تھے۔ ادب دوستی اور ادب پروروں کااحترام جس جس کے حصہ میں آئے گا اسے مالامال کرتا چلاجائے گا۔
کب ملے گی سچ کی تحریر چہروں میں رضا
اب توملتی ہے اکثر تیرے شعروں میں رضا
اردو کے ساتھ پنجابی میں طبع آزمائی کرنے والے گنے چنے افراد میں سے ایک نعیم رضا بھی ہیں جنہیں ان کے پنجابی کلام پر دل کھول کرداد دی گئی۔
بنڈالہ کے سپوت ڈاکٹر نعمان خلیل کاشر ایک علمی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں اور ان دنوں راولپنڈی مین لوگوں میں شفابانٹنے کاکام بطریق احسن سرانجام دے رہے ہیں۔
کہانی کونیااک موڑ دوتم
سنو! لاہو ر کوچھوڑ دو تم
خداجانے ڈاکٹر موصوف کس کہانی کوکون ساموڑ دیناچاہ رہے ہیں اور اپنے مقصود کولاہور سے نکال کر پہاڑوں میں بسیراکروانے کے عزم پیہم پر کاربند نظرآتے ہیں گو یابذبان اقبال کہہ رہے ہوں۔
تو شاہین ہے بسیراکر پہاڑوں کی چٹانوں پر
ادب سے محبت کاتقاضاہے کہ جہاں اہل ادب بلائیں، عزت افزائی سے نوازیں خصوصاً آپ کو انہماک سے سنیں وہاں ننگے پاؤں دوڑکرجاپہنچیں۔
عاشقی کھیل ہے لیکن نہیں لفظوں کامیاں
میں یہ سمجھاوں جگر تاب کہاں سے لاؤں
صدرمحفل بندہ کے کلام پڑھنے کے دوران زیر لب مسکراتے رہے اور اپنی گردن ہلاکریہ بات سمجھاتے رہے کہ مولوی صاحب! ہم تو آپ کو بہت شریف آدمی سمجھتے تھے لیکن شاعری،عاشقی تو کچھ اور جتلارہی ہے۔
اس کے بعد بزم کے روح رواں ڈاکٹر حافظ خورشید حسن کی باری تھی سچی بات تو یہ ہے کہ اشعار سے اتنی محبت کہ خصوصی طورپر لاہورسے ایک دن کاسفر کرنا اور اس سے بڑھ کر یہ کہ نہ تو ستائش کی تمنا اور نہ صلے کی پروا۔ اللہ آپ کے علم وعمل میں برکت عطافرمائے آمین
دل زخم آشنا کولت ہے، گر کچھ مندمل بھی ہو
یہ پھر سے زخم کھانے کابہانہ ڈھونڈلیتاہے
آج کی بزم سے کچھ گھنٹے قبل ہمارے ایک مہربان ڈاکٹر موصوف کو اشعار سے محبت پر سخت سست سنا رہے تھے بعض ناصحین کابس نہیں چلتا ورنہ وہ شعراء کو کافر قرار دے کرانہیں سرعام قتل کرنے کی خوشخبری جنت میں داخلے سے مشروط کرکے اس انداز میں دیں کہ جابجا شعراء کے دھڑ رلتے نظر آئیں اور باقیوں کے لیے باعث عبرت ہوں۔
صدرمحفل نے کشمیر کے حوالے سے خصوصی نظم تیارکررکھی تھی جسے سب نے مل کراس خوبصورت انداز میں پڑھاکہ سماع بندھ گیا۔ اپنی دھرتی سے محبت، اپنی دھرتی باسیوں کااحساس اور دھرتی کی غلامی اور اس کادل سوزتذکرہ ہمارے ایمان کاحصہ ہے۔ پچھلی صدی میں تقریباً دنیا کے بہت سے ممالک نے قابضین سے جان چھڑاکر اپنے آزادممالک حاصل کرلیے ہیں ایسے میں ہمیں اپنے مہربان رب سے امیدہے کہ کشمیریوں کی بے پناہ قربانیوں کے سبب انہیں بھی آزادی جیسی نعمت عظمیٰ جلد میسرہوگی۔
طارق پرویز ہمیشہ کی طرح اس دفعہ بھی ہمارے حوصلے اور جذبے کوایسی مہمیز دے گئے کہ جوہمیں مایوسی اور ناکامی کے خوف سے آزادکرکے امیداور مستقل مزاجی کے ساتھ اپنا کام بھرپور اندازمیں کرنے کی رہنمائی کرتی رہے گی۔
امجدعزیز کاشر نے اپنے خیالات کے اظہار کے دوران دعوت پر منتظمین کاشکریہ اداکیا اور ساتھ ہی گلہ بھی کہ سابقہ محافل میں کیوں مدعو نہیں کیا۔ان شاء اللہ انہیں آئندہ ضرور مطلع کیاکریں گے۔
ڈاکٹر محمداسحاق جودوران مجلس صحافتی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کیمرہ کے پیچھے مصروف عمل تھے نے بزم ہا کے انعقاد کوویلی کے ادب پرور لوگوں پرور لوگوں کے لیے آکسیجن قرار دیا۔ اور اپنے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کروائی۔ جزاک اللہ صاحب!
ہمارے عزیز عتیق الرحمن عباسی شروع کے کچھ منٹ تو بڑی تندہی اور جوش وخروش سے مناظر کومحفوظ کرتے رہے لیکن ازاں بعد کٹے درخت کی طرح درمیان میں اس طرح گرگئے کہ پیچھے والے کیمرے پر نگاہیں جمائے ڈاکٹر اسحاق کے لیے عکس بندی اتنی مشکل ہوگئی کہ انہوں نے احتجاج اورواویلے سے انہیں دوبارہ اٹھنے اور جم کربیٹھنے پر مجبورکردیا۔ تشریف آوری پر وہ بھی شکریہ کے مستحق ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں