زندہ کون رہے گا؟…………………..بیاد ثاقب منیر شہید
مدثریوسف پاشا
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُ ت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کوویراں کرگیا
معروف بزرگ مصنف اشفاق احمد کاقول ہے کہ ”ہم میں سے زندہ وہی رہے گا جودلوں میں زندہ رہے گا اور دلوں میں وہی زندہ رہتے ہیں جوخیراورآسانیاں بانٹتے ہیں۔“ ڈپٹی کمشنر راجہ ثاقب منیر 20 فروری1980 ء میں حاجی راجہ منیر اللہ خان کے ہاں پیانہ بنڈالہ میں پید اہوئے۔ راجہ ثاقب منیر شہید کو بچپن ہی سے انکے ماموں راجہ اظہر اقبال خان نے محبت و شفقت کے سارے پھول نچھاور کرتے ہوئے اور ہر بات سے مقدم رکھتے ہوئے اپنی نگرانی میں ان کی پرورش کا ذمہ اٹھایا اور علم کی دولت سے مالامال کرنے میں اپنا ساکردار اداکیا۔ پاکستان اور آزاد کشمیر کی صف اول کی تعلیمی درس گاہوں جن میں آرمی پبلک سکول منگلا، فوجی فاونڈیشن سکول روالپنڈی، نیلم پبلک سکول مظفرآباد، شاہین ماڈل سکول میرپور، کشمیر ماڈل کالج میرپور، اور گورنمنٹ کالج لاہور جیسی عظیم درس گاہیں شامل ہیں سے آپ نے فیضان حاصل کیا۔ آپ نے شاہین ماڈل سکول میرپور سے میٹرک کا امتحان(تعلیمی بورڈ میرپور سے پوزیشن)پاس کیا۔ایف ایس سی کشمیر ماڈل کالج میرپورسے امتیازی نمبروں کے ساتھ پاس کرنے کے بعد گریجویشن اور ایم اے انگلش میں گورنمنٹ کالج لاہور سے گولڈ میڈل کے حق دار ٹھہرے۔ اور بعد ازاں CSSاور PSC کے امتحانات میں کامیابی ان کا مقدر ٹھہری۔ راجہ ثاقب منیر سرخ وسپید رنگت، گول مٹول خوبصورت چہرے، متوازن جسم،دید ہ زیب شخصیت کے مالک تھے۔
ستمبر2007 ء میں بطور AC انکی پہلی تعیناتی ہوئی بعد ازاں برنالہ اور پھر کوٹلی میں بھی بطورAC تعینات رہے۔ پھر انھیں کوٹلی سے ترقیاب کر کہ بطورADCG میرپور تعینات کیا گیا۔ بطورADCG روالا کوٹ بھی اپنے فرائض بطریق احسن سرانجام دیتے رہے۔ درمیانی عرصہ میں ڈپٹی ڈائریکٹر سپورٹس تعیناتی کے دوران میں بھی اپنی خدمات سے لوگوں کو مستفید کیا۔ پھر انہیں اعلیٰ خدمات کی بدولت ڈپٹی کمشنر بحالیات میرپور تعینات کیا گیا اور آپ کی انسانی ہمدردی اور فرض شناسی کو دیکھتے ہوئے حکومت آزاد کشمیر نے آپ کو 2012 ء میں ڈپٹی کمشنر نیلم تعینات کیا۔
28 فروری2013 ء بروز جمعرات ایک نہایت ہی جگر پاش اور اعصاب شکن حادثہ نے آزادکشمیر کی عوام کوبالعموم اور اہلیان سماہنی کو بالخصوص دہلاکررکھ دیا۔ عقا بی روح کے مالک اقبال کے شاہین کو اگر دیکھنا ہو تو ڈپٹی کمشنر راجہ ثاقب منیر کو دیکھو جو 28 فروری2013 ء کو مظفرآباد سے نیلم اپنی ڈیوٹی پر جاتے ہوئے لینڈ سلائیڈنگ کی زد میں آکر ڈونگا کس کے مقام پر جام شہادت نوش فرما گئے۔ ان کی پہلی نماز جنازہ مظفر آباد ہائی کورٹ گراؤنڈ میں ادا کی گئی جس میں GOC مری،میجر جنرل ملک غلام عباس،سابق وزیر اوظم راجہ فاروق حیدر خان۔ سپیکر اسمبلی غلام صادق سمیت وزراء حکومت۔سیکرٹری صاحبان،اعلیٰ عدلیہ کے آفیسران،سول سوسائٹی و ملٹری آفیسران کے علاوہ صحافی حضرات سمیت ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ بعد ازاں انھیں بذریعہ ہیلی کاپٹر بنڈالہ لایا گیا جہاں ہزاروں لوگوں کا جم غفیر پہلے سے آنسوؤں کی لڑیاں پروئے ہوئے غم سے نڈھال تھا۔قدرت کا اٹل قانون ہے جس سے بچنا کسی کے بس کی بات نہیں انسان اس دار فانی میں کچھ عرصہ گزارنے کے بعد لازمی دارالبقاء کا مسافر بن جاتا ہے۔اگلے دن یکم مارچ 2013 ء کو بوقت 1:00 بجے جس میں صدر آزاد حکومت سردار یعقوب،وزیر اعظم آزاد کشمیر چوہدری مجید، سابق وزیراعظم راجہ فاروق احمد،سابق صدر راجہ ذولقرنین خان،وزراء حکومت،بیورو کریٹس،عدلیہ،ملٹری و سول آفیسران،صحافی،کے علاوہ آزاد کشمیرپاکستان بھر کے ہزاروں افراد کا ایک جم غفیر بنڈالہ کی دھرتی پر راجہ ثاقب منیر کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے جمع تھا اور پھر انھیں آبائی قبرستان پیانہ بنڈالہ میں پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔
سلام ان والدین پر جن کے گھر ثاقب منیر جیسے عظیم انسان کی پرورش ہوئی۔ابتدائی درسگاہ ماں کی گودہی ہوتی ہے۔جہاں سے فیض حاصل کرکے انسان آئندہ زندگی کی راہیں متعین کرتا ہے اور ملک و قوم کی فلاح وبہبود اس کامنشور ومطلوب بنتی ہے۔ وطن سے محبت اور انسا نیت کی خدمت یہ وہ واحد سوچ ہے جو ہر ماں کے ذہن میں جلوہ گر ہوتی ہے اور وہ اپنے بچوں کی اچھی تعلیم اور بہترین تربیت کرکے انہیں اسلام کے ہیرؤز صلاح الدین ایوبی،ٹیپو سلطان، طارق بن زیاد، نورالدین زنگی، محمود غزنوی اور شیخ عبدالقادر جیلانی جیسا نامور بناناچاہتی ہے۔
راجہ ثاقب منیر پوری ریاست میں بالعموم اورنیلم میں باالخصوص ایک دیانت دار اور فرض شناس آفیسر تھے۔ باحیا،باتدبیر اور فہم وفراست کا پیکر تھے۔ وہ رعب اور دبدبے،شان وشوکت، گاڑیوں پر سرکاری جھنڈیوں، اکڑی گردن، گارڈز کے ساتھ نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں اپنے آپ کو عوام کا خادم سمجھتے تھے۔ قابل تعریف انسان وہ ہے جو دنیا سے جانے کے بعد بھی اپنے عظیم کردار،اعلی اوصاف، بے مثال گفتار اور قابل تعریف سوچ و فکر کی بنیا د پر انسانوں میں ہر وقت موضوع بحث بنا رہے۔ثاقب منیر کی زندگی حقیقت میں نوجوانان آزادکشمیر کے لیے مشعل راہ ہے۔شہاب ثاقب آسمان پر چمکنے والے ستارے کانام ہے۔راجہ ثاقب منیر نے اپنے اعلی کردار سے اپنے نام کی لاج رکھی اور خطہ کشمیر میں تھوڑی دیر تک چمکتا رہا اور دنیا کے لوگ اس کی روشنی سے مستفید ہوتے رہے۔ لیکن موت نے اسے ہم سے چھین لیالیکن وہ اپنے اوصاف حمیدہ کی بدولت مدتوں لوگوں کے دلوں میں زندہ رہے گا۔ اور یہی اس نوجوان کابڑاپن ہے۔
انسانی تاریخ ایسے افرادسے بھری پڑی ہے کہ جن کے کارہائے نمایاں ان کے بعد آنے والوں کے لیے نشان منزل کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔ جنہوں نے اپنے اپنے ادوار میں تاریخ کے دھارے بدل دیئے اور اپنی اپنی اقوام کے لیے ایسے کارہائے نمایاں سر انجام دیے کہ وہ آج بھی ان ہستیوں پر فخر کرتی ہے۔بلا شبہ ڈپٹی کمشنر ثاقب منیر بھی ایسی بھی ایسی ہی خوش نصیب شخصیات میں شامل ہیں جن کو تاریخ یاد رکھنا اپنا افتخار گردانے گی۔ ثاقب منیر شہید کو اس دار فانی سے ناطہ توڑ کر عالم عدم کو آباد کیے ہوئے آج تین سال بیت گئے ہیں۔لیکن ان کی یادیں،باتیں ہر ایک زبان پر تذکرہ بن گئی ہیں۔ اور اصل بڑائی تو ہوتی ہی یہی ہے کہ ہر کوئی کہے کہ وہ میراپناتھا گو کہ ثاقب منیر کے خاندان پر جو قیامت ٹوٹی ہے اسے بیان کرنا شاید کسی کے بس کی بات نہیں لیکن اصل قیامت اہلیان آزاکشمیر پر ٹوٹی ہے جنہیں مدتوں بعدایک ہونہار،فرض شناس اور ایماندار آفیسر میسر آیاتھا۔نیزثاقب منیر ہماری بیوروکریسی اور آفیسران کے لیے رول ماڈل ہے کہ اگر وہ بھی اپنے شہید بھائی کی طرح اپنے فرائض منصبی کماحقہ ہوادارکریں گے اور ہرلحظہ عوامی خدمت کو اپناشعار بنائے رکھیں گے تو لوگ ان سے اسی طرح اٹوٹ پیارکریں گے دلوں میں ان کی تصویرسجاکررکھیں گے۔ ثاقب منیر کی وفات حسرت آیات پر اللہ رب العزت کے حضور ایک ہی دعاہے کہ وہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے ان کے پسماندگان خصوصاً ان کے بیٹے کامل ثاقب کو ان کااصلی وارث اور جانشین بنائے۔اور آخروی وابدی زندگی میں سکون نصیب فرمائے آمین۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
747