اماں! تیرا شیدا ڈاکٹر بن گیا ہے
تحریر: یاسر غنی
ایس ایس ٹی (بائیو) نہالہ تحصیل سماہنی
(حافظ ڈاکٹر خورشید حسن پر لکھی گئی تقریباﹰ سات سال پرانی ایک تحریر)
خورشید حسن نے حسب توقع ایف ایس سی میں پہلی پوزیشن حاصل کر لی ہے۔ اور نہ صرف وادی سماہنی بلکہ پہلی بار بورڈ کے ”بورڈ“ پر ضلع بھمبر کا نام بھی سر فہرست درج کروانے کا اعزاز بھی حاصل کر لیا ہے۔
خورشید کا تعلیمی گراف بتدریج بلندی کی طرف مائل بہ سفر رہا ہے۔ میٹرک میں نویں پوزیشن حاصل کی لیکن انتھک جدوجہد نے اسے ایف ایس سی میں پہلے نمبر پر لا کھڑا کیا ہے۔ بورڈ و یونیورسٹیاں ٹاپ کرنے والے طلباء و طالبات ذہین و محنتی ہوتے ہیں اور یہ مقام سخت محنت کے بعد ہی ملتا ہے۔ لیکن خورشید میں بہت سی خصوصیات ایسی بھی ہیں جو ہر ذہین و محنتی طالب علم کے حصے میں نہیں آتیں۔
وہ ایک شعلہ بیاں مقرر ہے۔ اپنی جادو اثر تقاریر سے محافل کے دل موہ لیتا ہے۔ وہ ایک اچھا لکھاری اور شاعر بھی ہے۔ بہترین خطاط اور سب سے بڑھ کر حافظِ قرآن بھی ہے۔ وہ تحریر و تقریر کے کئی مقابلے جیت کر اسناد و انعامات کی صورت میں داد تحسین حاصل کر چکا ہے۔ ماہنامہ پھول اور روشنی کا مستقل لکھاری ہے۔ ریڈ فاؤنڈیشن کالج سماہنی کے سالانہ مجلہ ”تعبیر“ کا سٹوڈنٹ ایڈیٹر بھی رہ چکا ہے۔ اس کی یہ منفرد خوبیاں اسے دیگر ذہین طلباء سے ممتاز کرتی ہیں۔ اسے فخر سماہنی یا بھمبر کہنا زیادتی ہے۔ بلکہ وہ تو پوری قوم کا سرمایہ افتخار ہے۔ اس نے جس میدان میں بھی قدم رکھا، کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔
یہ اس کی زندگی کا صرف ایک پہلو ہے، جو روشنیوں، کامیابیوں اور فتوحات پر مشتمل ہے۔لیکن ایک اور پہلو بھی ہے جو تلخ، دشوار، اور پُرخار ہے۔ ان تکلیفوں میں رہتے ہوئے اس کا عظیم کامیابی حاصل کرنا ایسے ہی ہے جیسے کوئلے کی کان سے ہیرے کا نکلنا۔ خورشید حسن وادی سماہنی کے نواحی گاؤں چاہی میں پیدا ہوا۔ اس کے والد ایک پرائمری مدرس تھے۔ اس کی ایک بہن اور ایک بھائی ہے۔ خورشید سب سے چھوٹا ہے۔ ابھی اس نے زندگی کی محض تین بہاریں ہی دیکھی تھیں کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ والد کی وفات کی وجہ سے اچھی تعلیم و تربیت کا خواب شروع ہونے سے پہلے ہی بکھر گیا۔
لیکن اللہ نے خورشید کے ماموں کی صورت میں ایک شجر سایہ دار مہیا کر دیا۔ اس کے ماموں مدثر یوسف پاشاؔ بھی شعبہ تعلیم سے وابستہ ہیں اور خاصا علمی و ادبی لگاؤ رکھتے ہیں۔ ضلع کے ادبی و صحافتی حلقوں میں ان کا ایک معتبر مقام ہے۔ کالم نگاری، افسانہ نویسی اور شاعری ان کے شوق ہیں۔ انہوں نے خورشید کو اپنی بہن سے مانگ لیا اور اپنی سرپرستی میں لے لیا۔ اور بلا مبالغہ تعلیم و تربیت کا حق ادا کر دیا۔ والد کی وفات کے چھ سال بعد خورشید کی والدہ بھی اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئیں۔ ان پے در پے صدمات نے خورشید کی بڑی بہن اور بھائی کی تعلیم کو خاصا متاثر کیا لیکن خورشید نے ایک مضبوط علمی چھتری تلے اپنے سفر کو جاری رکھا۔
روز بروز اس کی تعلیمی استعداد میں اضافہ ہوتا گیااور مختلف صلاحیتیں نکھر کر سامنے آنے لگیں۔ وہ ہمیشہ بڑا مؤدب اور محنتی طالب علم رہا ہے۔ اس کی طبیعت میں بہت حساسیت ہے۔ اس نے اپنے ساتھ بیتے دکھوں کو نہ صرف یاد رکھا بلکہ قلم کی صورت میں ایک زبان بھی عنایت کر دی۔
ان کامیابیوں میں رِیڈ فاؤنڈیشن کو داد نہ دینا قرینِ انصاف نہ ہو گا۔ جس نے خورشیدکی تمام تعلیمی ضروریات کی احسن انداز میں کفالت کی۔ اور اس کی تمام تعلیمی ضروریات کو اس کے محسوس کرنے سے پہلے ہی پورا کر دیا۔ اس کے تمام اساتذہ بھی لائق تحسین ہیں جنہوں نے اس کے تمام حالات و واقعات کو مد نظر رکھ کر خصوصی شفقت اور توجہ دی۔ اور اس ہیرے کو تراش کر کوہِ نور بنا دیا۔
ان تمام کامیابیوں کے بعد خورشید کا یہ عزم ہے کہ وہ ڈاکٹر بن کر ملک و قوم کی خدمت کرے گا۔ انشاء اللہ وہ بہت جلد یہ منزل بھی حاصل کر لے گا۔ اور امید ہے کہ وہ محض ”چیرنے پھاڑنے“ والا ڈاکٹر ہی نہیں بنے گا بلکہ غریبوں اور محتاجوں کا سچا ہمدرد و مسیحا بنے گا کیونکہ اس نے زندگی کی بہت سی تلخ حقیقتوں کو قریب سے دیکھا ہے۔ اسی کرب نے اس کے اندر کے شاعر و ادیب کو جگایا ہے۔ وہ یقینا اپنے شعبے میں بھی نام پیدا کرے گا اور ایک معیاری اور مثبت ادیب بھی بنے گا۔ لیکن ابھی اس کا سفر تمام نہیں ہوا۔
ابھی اس نے ڈاکٹر بننا ہے۔ ابھی اس جواں سال پودے کو تناور درخت میں تبدیل ہونا ہے۔ اس پودے کو ابھی خوراک و پانی کی ضرورت ہے۔ ابھی اس بات کی حاجت ہے کہ رِیڈ فاؤنڈیشن اور دیگر صاحب خیر افراد اور تنظیمیں اس کے سر پر دستِ شفقت رکھیں اور اس کی باقی ماندہ تعلیمی ضروریات پوری کریں تاکہ یہ ابھرتا ہوا خورشید سارے عالم کو روشن و منور کر سکے۔ اور اپنی منزل پانے کے بعد ماں کی قبر پر جا کر یہ کہہ سکے کہ
”اماں! تیرا شیدا ڈاکٹر بن گیا ہے“۔