720

کشمیر کی آزادی کامیٹھااور…….سہاناخواب

سہاناخواب
آج وہ محکومی اور مقہوری کے سائے نہیں تھے وہی گھٹاگھٹا ماحول جس میں ہرسات کشمیریوں پرایک بندوق بردار ہندوفوجی تعینات تھا پہلے تو ہرکشمیری ساڑھے سات روپے میں مہاراجہ کے ہاتھوں بک گیاتھا اور اب یہ جنگل کاقانون،بھلادنیا بھرمیں کوئی ایسا خطہ ہے جس کے پہاڑ جنگلات کے حسن سے مالامال ہوں جہاں دنیاکانایاب اور قیمتی زعفران پیداہوتاہو،جس ملک کے چاول کی خوشبو سونگھنے والے کومدہوش کردے، جس علاقے کاپانی بہتا سوناہواور اس سے لاکھوں میگاواٹ بجلی تیارکی جاسکتی ہو،جسے قدرت نے اپنی فیاضی سے چار بہترین موسم عطاکررکھے ہوں،جس دھرتی کے بیٹے باشعوراورغیور ہوں بھلااس دھرتی کوجہنم بناکرانسانیت کے ایوارڈ لیے جارہے ہوں تو اس میں مظلوم کشمیریوں سے زیادہ امت مسلمہ بالعموم اور پاکستان بالخصوص ملوث ہے وگرنہ ہندوؤں،عیسائیوں اور یہودیوں کے کتوں کے حقوق کی پامالی پر دنیامیں زلزلہ برپاہوجائے اور ادھر سوالاکھ سے زائد کشمیری اپنی جان کانذرانہ دے کر اپنے وطن کی آزادی مانگتے ہوں تو یہ ناقابل اشاعت،ناقابل بیان جرم کہلائے اس گھٹن کے ماحول کومنفقانہ نہ کہاجائے تو شاید یہ بھی ناانصافی ہوگی۔ لیکن آج تو ساراماحول ہی بدلابدلا سالگ رہاتھا۔ چرند،پرند بھی چہچاتے ہوئے خوشیاں منارہے تھے۔درخت بھی محورقص نظرآرہے تھے ندی،نالوں کے پانی میں ایک عجیب قسم کاجوش دیکھنے میں آرہاتھا۔بھلایہ سب چیزیں پہلے بھی موجود تھیں لیکن اتنی حسین کیوں نظر نہیں آتی تھیں جواب واضح تھا پہلے آزادی جیسی نعمت جومیسر نہ تھی۔
وہ جہاں سے بھی گزرا کشمیری جوانوں،بوڑھوں، خواتین اور بچوں کے چہروں پر پھیلی مسکراہٹ اور طمانیت دیکھ کر حیران رہ گیا۔کیایہ وہی لوگ ہیں جن کے چہروں سے مسکراہٹ چھین لیاگیاتھا؟واقعی 5250سالہ تاریخ رکھنے والی قوم سے بڑی زیادتی کی گئی تھی آزادی جیسی بے بہانعمت چھین کر۔
اس نے کافی فاصلہ طے کرلیاتھا لیکن کہیں بھی ملٹری کاکوئی کیمپ اور فوجی نظر نہیں آیاتھا نہ ہی پولیس کے سپاہی کتوں کی طرح مسلمانوں کی بوسونگھتے دکھائی دے رہے تھے۔ تھوڑآگے چل کر وہ گرلز کالج کے پاس پہنچا وہاں چھٹی کاوقت ہوچکاتھا کالج گیٹ سے نکلنے والی لڑکیوں نے پوراپردہ کیاہواتھا لیکن ان کے چہروں پر وہ ہڑبڑاہٹ ہرگز نہیں تھی جوآزادی سے قبل دکھائی دیتی تھی اور ہروقت یہی دھڑکا لگارہتاتھا کہ کہیں ظالم ہندؤ اٹھاکرنہ لے جائیں۔
تبھی نمازجمعہ کے لیے اذان سنائی دینے لگے۔اللہ اکبر،اللہ اکبر،اشھدان لاالا الہ اللہ۔اللہ بڑاہے،اللہ سب سے بڑاہے،میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سواکوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمدﷺ اس کے رسول اور بندے ہیں۔ حمزہ کے کانوں میں اذان کے الفاظ رس گھول رہے تھے اذان کی اتنی مٹھاس اسے پہلے کبھی کیوں محسوس نہیں ہوئی تھی وہ تو ہمیشہ سنگینوں کے سائے تلے نماز جمعہ اداکرنے کے عادی تھے گو کہ پیراملٹری فورسز کے پہرے میں بھی غیور کشمیری آزادی اور بھارت کی بربادی کی دعائیں کرنے،نعرے لگانے،ریلیاں نکالنے،شہادتیں پانے اور اپنی قوم کوآزادی کاانمول سبق دیتے نہیں تھکتے تھے۔ غاصب بھارتی فوجی ظلم وبربریت کرتے تھک جاتے تھے لیکن کشمیریوں کاجذبہ وجوش آزادی کبھی سردنہیں پڑتاتھا۔ ہراذیت، ہرتکلیف ان کی آزادی کے جذبے کومہمیز دینے کاباعث بنتی تھی اور وہ وفاشعاری،حب الوطنی کی ایسی داستانیں رقم کرچکے تھے کہ آسمان کوبھی ان کی استقامت اورعزیمت پرفخرمحسوس ہوتاتھا۔ جذبہ آزادی تھاکہ سردہونے میں نہیں آرہاتھا یہی اخلاص اورتڑپ ان کے دشمن کو ایک آنکھ نہیں بہاتی تھی اس نے سڑکوں،بجلی،ملازمتوں،سکولز،کالجز اور یونیورسٹیوں کاچارہ ڈالا لیکن سونے کاپنجرہ آزادی کے ٹوٹے پھوٹے گھاس پھونس کے گھونسلے سے بدرجہا بہتر تھا اور یہ سچ کشمیری عرصہ دراز سے سمجھ کراپنالہوپانی کی طرح بہاتے چلے آرہے تھے۔ آر،پار کافرق مٹ چکاتھا سڑکیں گاڑیوں سے بھری ہوئی تھیں لوگ اپنے بچھڑوں سے ملنے کی بے تابی میں سینکڑوں میل کاسفر طے کرکے بھی خوش وخرم اور مست خرام تھے یہ آزاد فضائیں اور بہاریں محض اللہ کے فضل وکرم وحکم اور آقامدنی ﷺ کی پیاری ومتبرک سنت جہاد کواوڑھنا بچھونا بنانے کے سبب حاصل ہوئی تھیں۔ غلامی کی تاریک اور سیاہ رات ڈھل چکی تھی نئی سحرطلوع ہوچکی تھی جہاں نہ تو اللہ کی راہ میں گائے ذبح کرنے پر پابندی تھی۔اور نہ ہی مسجدیں کرنے پر چھاپوں اور جواب طلبیوں کاخوف۔
بھلااس سہانے ماحول میں کشمیری اپنے رب کو کیسے بھول پاتے انہوں نے شریعت محمدیﷺ کو بطورنظام نافذکردیاتھا۔ خدائی حکم پرسرتسلیم خم کرنے پر ر ب کی بارگاہ سے رحمتوں اور برکتوں کے من وسلویٰ اتررہے تھے۔کشمیری کرنسی دنیا کی سب سے بااعتبار اور مضبوط کرنسی بن چکی تھی لوگ ڈالرکی جگہ اس کرنسی میں لین دین کرنے زیادہ مفید اور آسان سمجھتے تھے۔سوداور سودی کاروبار ختم کیے جاچکے تھے حکومت کی طرف سے یہ اعلان عام کرادیاگیاتھا کہ سوداللہ سے جنگ ہے لہذابندہے۔ ہندؤ گھرانے بھی اپنی مذہبی آزادی کیساتھ سکھ چین کاسانس لے کرجنت ارضی میں رہ رہے تھے ان کی جان،مال کی حفاظت حکومت کے ذمے تھی۔غرض بہت عرصے بعد آسمان کی آنکھیں یہ منظر دیکھ رہی تھیں کہ جہادی اور مجاہد دندناتے پھررہے تھے۔قانون میں شہداکے گھرانوں کو خصوصی پروٹوکول حاصل تھاایسے تمام گھرانے VVIPکادرجہ رکھتے تھے جن کے بیٹوں نے وطن پر اپنی جانیں نچھاور کی تھیں ایسی تمام عفت مآب خواتین کے لیے وظائف مقرر تھے جنہوں نے آزادی کی جنگ میں اپنی عزتوں کی قربانیاں دی تھیں۔ غازیاں کرام کو امتیازی شیلڈز وتمغہ جات سے نوازاجانا حکومتی معمول تھا۔ ان سفرکے لیے اعلیٰ قسم کی گاڑیاں میسرتھیں۔ جوہروقت حرکت میں رہتی تھیں۔ گو کہ حکمران بھی عوام کے چنیدہ لوگ تھے لیکن انہیں فوقیت محض تقویٰ اور اتباع رسول کی وجہ سے حاصل تھی۔ غرض مکمل اسلامی ماحول میسرتھا۔ خواتین کے لیے علیحدہ سکولز،کالجز اور یونیورسٹیاں بن چکی تھیں جہاں خواتین اساتذہ انہیں مکمل اسلامی ماحول میں مستقبل کے لیے تیارکررہی تھیں۔ غرض کہ وادی میں ایسا رو ح پرورماحول تھا کہ جنت ارضی ہونے کاگمان ہوتاتھا۔لوگ خوف خداسے لین کرتے،اخوت وبھائی چارے کی مثال بنے ہوئے تھے۔ رشوت،سفارش کاکلچر مدتوں ہوئی ختم ہوچکاتھا جھگڑے نہ ہونے کے برابر تھے اگر کہیں کوئی اکادُکا معاملہ ہوبھی جاتاتو شرعی عدالتیں اسے ہفتے،عشرے میں نمٹاکرفریقین میں صلح کروادیتی تھیں۔
صرف سیاحت کے شعبہ سے صرف ایک سال میں ہونے والی آمدن نے کشمیری حکومت کو مالامال کردیاتھا۔دنیا بھر سے سیاح اس طرح ٹوٹ پڑے تھے جیسے گڑپر مکھیاں کیونکہ نہ تو کوئی ملک اس سے زیادہ خوبصورت تھا اور نہ ہی پرامن۔
ایسا تو صرف اس لیے ممکن ہوپایاتھا کہ کشمیریوں نے اپنے رب کے حکم پر غاصب ہندوستان کے خلاف علم جہاد بلندکیا اور اس کے نتیجے میں لاکھوں جانوں کی قربانی دی اور بدلے میں اللہ نے دھرتی کاایک بے مثال خطہ حکمرانی کے لیے عنایت کردیا جس پر وہ رب کے نظام کونافذ کرکے مزید اس کی عطاؤں کے حق دار ٹھہرے۔
حذیفہ بیٹا! نماز فجر کاوقت نکلاچلاجارہاہے بیٹاپہلے نماز اداکرلو پھر سکول جانے کی تیاری کرو۔ امی کی آواز نے حذیفہ کواتنے میٹھے اورسہانے خواب سے گویابیدار کردیا لیکن اس نے عزم کرلیا کہ وہ اس خواب کو تعبیر دینے کے لیے اپنی تمام ترصلاحیتوں کو برؤئے لائے گا۔ اور اسے حقیقت میں بدل دے گا انشاء اللہ
٭٭٭٭٭٭…………………………………………………………٭٭٭٭٭٭٭٭

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں