678

مخولیا………باباجی کی پھرتیاں

”بابا جی کی پھرتیاں“
مدثر یوسف پاشا(مدیر اعلیٰ)
ادبی مجلے میں صرف سنجیدہ مضامین ہی تو نہیں ہوتے ناں طنز و مزاح بھی ادب کا ایک لطیف حصہ ہے۔ اپنے اندر مزاح کی چاشنی لیے ایک تحریر……
بابا جی اپنی سپیڈ اور پھرتی کے لیے مشہور ہیں۔ سماہنی کے ایک (ر) صوبیدار صاحب اور بابا جی کی سپیڈ والی قدر مشترک ہے اور بعض سیانے تو یہاں تک کہہ گزرتے ہیں کہ ان دونوں حضرات پر اگر سپیڈو میٹر لگا دیں تو شام ہونے تک اس کی سوئیاں بھی شرمندگی کی وجہ سے نیچے جا گریں گی یعنی وہ سپیڈو میٹر ہاتھ کھڑے کر کے اپنی شکست تسلیم کر لے گا بات اگر سپیڈو میٹر تک ہی محدودرہے تو بہت مثبت اور اچھی ہے کیونکہ فی زمانہ پیدل چلنا اور اتنے ڈھیر سارے کام سر انجام دینا بذات خود ایک کارنامہ ہی کہلائے گا لیکن اس کارنامے کو بابا جی کی”پھرتی“ یا جلدی گہنا دیتی ہے اور جلدی کام خرابی کا مصداق بنا دیتی ہے۔ ایسی ہی چند مصدقہ پھرتیاں ملاحظہ فرمائیے۔ (نوٹ: واقعات محض طبع تفریح کیلئے ہیں ان کا مقصود بابا جی کی بے عزتی ہر گزنہیں ہے)
۔۔۔۔۔۔پھرتی نمبر 1۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صابر حسین صابر صاحب (موجودہ ریجنل مینجر) اے ایم ایس سکولز تھے ان کا دفتر پٹوار خانے کے نیچے کشمیر ماڈل ہائی سکول یا وادی سکول کے دفتر والی جگہ تھا۔ اس دفتر کیلئے علیحدہ سے کوئی نائب قاصد نہیں تھا بس ملت سکول سے بابا جی جا کر صفائی ستھرائی کر آتے تھے۔
ایک دن صابر صاحب نے نذیر احمد صاحب (مرحوم) سے کہا کہ بابا جی کو بھیج دینا۔ میرے دفتر کی صفائی کر جائیں گے۔ نذیر صاحب (مرحوم) نے بابا جی کو دفتر بھیجا انہوں نے بس ایک دو منٹوں میں صفائی کر لی۔ صابر صاحب فائلیں دیکھ رہے تھے انہوں نے بابا جی کو فارغ دیکھا تو کہا بابا جی! دیوار والی گھڑی پر کافی گرد پڑی ہوئی ہے برائے مہربانی اسے صاف کر دیں۔ صابر صاحب اپنے کام میں لگ گئے اور بابا جی نے اپنے کندھے پر رکھی چادر اتاری اسے گول کر کے (کوٹلہ) گھڑی پر پھینکا مروڑی ہوئی چادر گھڑی کے شیشے سے ٹکرائی اور بس ایک چھناکے کی آواز سنائی دی۔ صابر صاحب نے جب سارا منظر دیکھا تو ہنستے ہوئے بابا جی سے کہا ”بابا صفائی ہو گئی ہے آپ جائیں وہاں نذیر صاحب کے دفتر کی گھڑی بھی کافی گندی ہے۔۔۔۔۔۔۔ہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔
پھرتی نمبر 2
راقم 2005ء ؁ میں سرسالہ ون سے ملت سکول سماہنی بطور کمپیوٹر ٹیچر شفٹ ہوا۔ تین چار دن بعد بریک کے وقت دفتر بیٹھے ہوئے تھے محترم نذیر احمد صاحب نے باباجی کو اپنے پاس بلایا اور کہا کہ یہ جو نئے سر آئے ہیں انہیں جانتے ہیں؟ بابا جی نے میری طرف دیکھا پھر نفی میں گردن ہلا دی۔ نذیر صاحب نے میرا تعارف کراتے ہوئے کہا یہ سرسالہ ون کے پرنسپل تھے دوسرے تیسرے دن سماہنی آتے رہتے ہیں ان کا نام ”مدثر یوسف پاشاؔ“ ہے۔ بابا جی نے گردن ہلائی اور تعارف ہو گیا۔ (ویسے مجھے جانتے تھے بس نام نہیں آتا تھا)۔
تین چار دن بعد چھٹی کے کافی دیر بعد راقم، اکرم صاحب اور نذیر صاحب دفتر بیٹھے تھے کہ اچانک کہیں سے بابا جی کی آمد ہوئی۔ آپسیدھے میرے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئے نذیر صاحب ویسے ہی زندہ دل اور مزاحیہ آدمی تھے انہیں پتہ نہیں کیا سوجھی بابا جی کو مخاطب کر کے کہنے لگے بابا جی اگر آپ ان کا نام بتا دیں تو میں 100روپے بطور انعام دوں گا۔100روپے پر بابا جی جھومتے ہوئے کھڑے ہو گئے اور دونوں ہاتھ کمر پر رکھ کر نذیر صاحب کے پاس چلے گئے اور پوچھنے لگے 100روپیہ ہی لوں گا صاحب یاد رکھنا۔ نذیر صاحب نے کہا بالکل 100روپیہ بھی اور شاباش بھی۔
بابا جی نے گردن گھمائی مجھے غور سے دیکھا زیر لب مسکرائے شاید میرا نام اپنے دل میں دہرا رہے تھے آدھا منٹ اسی عالم میں مجھے دیکھتے رہے پھر ایک دم نذیر صاحب کی طرف منہ کر کے زور سے بولے ”پیر پہاڑ شاہ“۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے اور اکرم صاحب کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔
پھرتی نمبر 3
راقم نے بابا جی کو بلایا اور کہا سٹیبلائزر دیکھا ہوا ہے بولے نہیں۔ راقم انہیں ساتھ لے کر کمپوٹر لیب میں گیا اور کمپیوٹر کے ساتھ لگے چھوٹے ڈبے کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ یہ سٹیبلائزر ہے بجلی کی کمی پوری کرنے کے لیے لگاتے ہیں۔آ پ عائشہ کیمپس جائیں وہاں پرنسپل آفس میں بڑے ٹیبل کے ساتھ کمپیوٹر والا چھوٹا ٹیبل پڑا ہے اس کے نیچے والے دراز میں سٹیبلائزر پڑا ہو اہے اسے اٹھا کر لے آئیں۔ بابا جی پھرتی سے باہر نکلے میں نے دوبارہ واپس بلا لیا اور پوچھا میں نے جس چیز کا بتایا ہے اس کا پتہ چلا ہے یا۔۔۔۔۔۔۔؟صاحب یہ وہی چیز ہے ناں جو فریج کے ساتھ لگی ہوتی ہے میں نے ستائش بھری نظروں سے دیکھا اور جلدی آنے کی تاکید کر کے بھیج دیا۔
تین چار منٹ بعد میں کیا دیکھتا ہوں کہ بابا جی خالی ہاتھ واپس آ رہے ہیں۔مجھے گمان گزرا کہ شاید ساتھ کوئی دوسرا بندہ بھی ہو جس نے سٹیبلائزر پکڑ رکھا ہو یا عائشہ کیمپس کے کسی نائب قاصد کو لانے کا کہہ آئے ہونگے۔ آپ سیدھے میرے پاس آئے اور میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی اپنی بغلی جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک تالا نما چیز میرے ہاتھ پر رکھ کر بولے ”میں جلدی آیا ہوں ناں“ میں نے مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق انہیں اس ”جلدی“ پر شاباش دی اور بعد میں تار کو دیکھا تو پتہ چلا کہ وہ پرنسپل آفس سے سٹیبلائزر کی جگہ ایئر فون (Ear Phone)اٹھا لائے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہا ہا ہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہا ہا ہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھرتی نمبر 4
میری کلاسز عائشہ کیمپس میں تھیں۔بورڈ کے متعلق کوئی ضروری خط ارجنٹ لکھنا تھا۔نذیر صاحب نے بابا کو مجھے بلانے کیلئے بھیجا۔ (یاد رہے ان دنوں لینڈ فون بھی نہیں تھے۔ رابطہ کا کوئی ذریعہ نہ تھا)۔بابا جی کیمپس گیٹ پر آئے۔گیٹ بجایا اندر سے میڈم ممتاز بر آمد ہوئیں۔ جی؟ پیر پہاڑ شاہ کدھر ہیں؟ وہ سمجھیں شاید دربار عالیہ پیر پہاڑ شاہ کے متعلق پوچھ رہے ہیں انہوں نے بابا جی کو سمجھایا کہ 6موڑ سے ذرا آگے سے ایک سڑک دربار تک جاتی ہے یا پھر لوگ ڈب سے بھی دربار جاتے ہیں۔اتنی وضاحت بھی انہیں مطمئن نہ کر سکی تو گیٹ کھول کر زبردستی اندر داخل ہو گئے کہ میں ابھی بلا کر لاتا ہوں۔ میں کلاس میں تھا وہ سیدھے میرے پاس پہنچے اور بتایا کہ نذیر صاحب بلا رہے ہیں ابھی چلیں میں نے کلاس چھوڑی اور سوچا کہ جاتے ہوئے میڈم ممتاز کو بتا کر جاؤں لیکن ہمارے کمرے سے نکلتے ہی میڈم ممتاز دکھا ئی دیں بابا جی فوراً بولے! میں جنڈی چونترہ والے ”پہاڑ شاہ“ کی بات نہیں کر رہا تھا۔مجھے نذیر صاحب نے ”پیر پہاڑ شاہ“ کو بلانے اسی کیمپس بھیجاتھا۔ دیکھا ناں میں نے ڈھونڈ لیا۔۔۔اور گرلز کیمپس میں بھی میرا نیا نام پوری وضاحت کے ساتھ پہنچ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔ہا ہا ہا۔
پھرتی نمبر 5
نذیر صاحب نے بتایا کہ بورڈ میں ایک خط بھیجنا ہے۔ ہفتہ کا دن ہے اور اگر آج کی ڈاک سے نہیں جاتا تو لیٹ فیس لگ جائے گی۔ ارجنٹ کام کیلئے بابا جی کو کال کیا گیا۔ اکرم صاحب نے پاس بلا کر سمجھایا بابا جی پہلے دانش کے پاس جائیں اسے پوچھیں کہ ڈاک جا سکتی ہے یا نہیں اگر وہ کہے کہ جا سکتی ہے تو اسے دے دینا ورنہ ڈاک خانے جا کر رجسٹری کرنا اور ان سے رسید لینا۔ یہ بات د وتین دفعہ سمجھائی گئی۔ بابا چلے گئے۔میرا پیریڈ تھا میں بھی چلا گیا۔ کوئی گھنٹے بعد میں میں واپس آیا تو دیکھا کہ بابا جی اکرم صاحب کے پاس کھڑے ہیں اور اکرم صاحب نے سر پکڑا ہوا ہے میں نے پوچھا خیریت؟ انہوں نے بتایا کہ بابا سیدھے دانش کے پاس گئے اس نے کہا کہ آج ارجنٹ ڈاک ولابندہ نہیں آئے گا۔آپ ڈاکخانے چلیجائیں بابا جی سیدھے ڈاکخانے گئے اور بے رنگ لفافے کو بغیر ٹکٹ رجسٹری کے سیدھا لیٹر بکس میں ڈال کر واپس آ گئے ہیں یہ پتہ تب چلا ہے جب رسید مانگی ہے۔مجھے بابا جی کی اس معصوم پھرتی پر ہنسی آئی پھر میں نے گھڑی دیکھی تو پتہ چلا کہ لیٹر بکس میں ابھی کافی دیر ہے۔وہیں سے ڈاکخانے فون کر کے لفافہ نکلوایا اور انہیں کہا کہ رجسٹری کر دیں۔ بابا جی تھوڑی دیر بعد جا کر رسید لے آئے ……ہا ہا ہا……ہا ہا ہا
پھرتی نمبر 6
صابر صاحب اے ایم ایس تھے ان کے دفتر پرنسپل میٹنگ تھی خاص مواقعوں پر صفائی کیلئے بابا جی کی خدمات لی جاتی تھیں انہیں بلا کر صابر صاحب نے سمجھایا کہ بڑے کمرے میں لگے چار ٹیبلز اور اطراف کی پندرہ سولہ کرسیوں کو گیلے کپڑے سے صاف کرنا ہے تا کہ چمکنے لگیں صابر صاحب فوٹو کاپی کروانے شہر چلے گئے۔ واپس آئے تو دیکھا کہ گیلے کپڑے کے مارنے سے ہر جگہ مٹی واضح نظر آ رہی ہے۔آپ نے مہمانوں کی آمد سے قبل اسے صاف کرنے کی بہتیری کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ بعد میں پوچھنے پر بابا جی نے بتایا کہ میں کپڑے کا چھوٹا سا ٹکڑا ڈھونڈ رہا تھا وہ نہیں ملا تو ایک تولیہ مل گیا اسے میں نے حاجی مرزا اللہ دتہ صاحب کی اینٹیں پکی کرنے والے حوض میں خوب بھگو کر کرسی میزوں پر پھیر دیا ……ہا ہا ہا ……(مرزا صاحب نے ٹائل، بالے اور اینٹیں پکانے کے لیے حوض بنایا ہوا تھا اور اس پانی میں سیمنٹ بھی بکثرت شامل ہو چکا تھا لہٰذا سیمنٹ کرسیوں، میز کی سطح پر بیٹھ گیا اور سوکھنے پر زیادہ برا لگنے لگا)
پھرتی نمبر 7
کسی ٹیچر نے ٹیسٹ لینا ہے ایک دن قبل وہ ٹیسٹ فوٹو کاپی کی دکان پر دے آئے اس ارادے سے کل خود لے جاؤں گا یا اگر وقت نہ ہوا تو بابا جی کو بھیج کر منگوالوں گا۔ ٹیچر نے بابا جی سے کہا کہ فوٹو کاپی کی دکان پر جائیں اور میرا کہیں کہ ان کا ٹیسٹ دے دیں وہ لے آئیں میں نے تھوڑی دیر تک لینا ہے۔ بابا جی نے راستے میں سوچا کہ کس کام جا رہا ہوں یاد نہیں آ رہا تو انہوں نے دماغ پر زور دینا شروع کیا کافی غور و حوض کے بعد یہ یاد آ گیا کہ فوٹو کی بات ہو رہی تھی آپ سیدھے فوٹو گرافر کے پاس گئے اور گھسیٹ کر سکول لے آئے۔ فوٹو گرافر کو دفتر بیٹھا کر متعلقہ استاد کو بلایا گیا تو اس نے سر پیٹ لیا کہ فوٹو سٹیٹ فوٹو گرافر بن گئی ہے۔
پھرتی نمبر 8
ٹرم کے امتحانات ہو رہے ہیں بابا جی کو پیپرز لینے کے لیے دکان پر بھیجا گیا انہوں نے جاتے ہی اپنی عادت کے مطابق ”پیپرز مانگ رہے ہیں جلدی کرو کی رٹ لگا لی“ دکاندار نے سمجھایا کہ دوسرے سکول کا کام ختم کر لوں پھر آپ کو دوں گا کیونکہ انہوں نے دور جانا ہے۔بابا چپ ہو کر بیٹھ گئے دکاندار رش کی وجہ سے اپنے کام میں مصروف ہو گیا کافی دیر بعد متعلقہ سکول کے بندے نے کام مانگا تو غائب۔ ادھر سکول پہنچے متعلقہ کلاس کے استاد نے پیپر چیک کرنے کے لیے نکالے تو ”چوکی“ کے۔پوچھا بابا جی کس کے پیپر لے آئے ہیں۔ کہا جو آپ نے کہا تھا وہی۔یہی باتیں ہو رہی تھیں تو دکاندار چوکی سکول کے ٹیچر کو لے کر ہمارے سکول پہنچ آیا۔ پتہ چلا کہ بابا جی سے برداشت نہیں ہو رہا تھا لہٰذا کوٹہ پورا کرنے کے لیے دوسرے سکول کا بنا ہوا لفافہ اٹھا لائے ہیں ……ہا ہا ہا ……۔
پھرتی نمبر 9
دو کیمپس ہوتے تھے پندرہ سولہ کمرے تھے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہر کیمپس کے دفتر کی ایک ایک چابی بابا اپنے پاس رکھتے باقی اسی کیمپس کے دفتر میں لیکن متعدد بار ایسا ہوا کہ آپ نے بیس تیس چابیوں کا گچھا بنایا اور گم کر دیا حتیٰ کہ ایک دن میں بائیس تالے توڑنے پڑے ……ہا ہا ہا ……
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں