868

گبین جبہ، جس کے حُسن نے ہمیں لاجواب کردیا

گبین جبہ، جس کے حُسن نے ہمیں لاجواب کردیا
عظمت اکبر
رات کے 10 بجے ہیں، میں ایک ہفتے بعد گلگت بلتستان کا ٹؤر کرکے گھر لوٹا ہوں۔ میری بیٹی رومیسہ میرے ساتھ بیٹھی موبائل پر گیم کھیلنے میں مصروف تھی کہ اچانک اس کی گیم میں خلل پڑتا ہے اور موبائل فون کی گھنٹی بجتی ہے، ’بابا آپ کے فون پر کال آ رہی ہے‘، پیاری دختر نے فون میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
فون میرے دوست نذیر ہنزائی کا تھا، کہنے لگے ’عظمت بھائی! آپ نے 27 اگست کو ہمارے 4 رکنی گروپ کو سوات میں کسی نئے مقام کی سیر کروانی ہے۔ منزل کا فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں۔ لیکن سفر آپ کے بغیر نہیں ہوگا۔ یہ کہہ کر نذیر بھائی نے اپنا فون بند کردیا‘۔
میرے لیے جون، جولائی اور اگست میں وقت نکالنا محال ہوتا ہے کیونکہ تقریباً ہر سال یہ 3 ماہ شمالی علاقہ جات میں ہی گزرتے ہیں۔ میں نذیر بھائی کی ناراضگی کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا، اس لیے اپنے شیڈول میں سوات کے 3 روزہ دورے کا پروگرام ایڈجسٹ کرکے کچھ ہی دیر میں خوابِ خرگوش کے مزے لوٹنے لگا۔
حسبِ شیڈول 27 اگست کو صبح تقریباً 6 بجے شبقدر سے اسلام آباد براستہ موٹروے مقررہ جگہ پر پہنچ گیا تھا۔
وہاں پہلے سے موجود گروپ کے 2 ساتھی ناشتہ تناول فرما رہے تھے۔ رسمی تعارف کے بعد بتایا گیا کہ کراچی سے تعلق رکھنے والے وی لاگر Vloger جوڑی پتنگیر اور پیرو سائیں بھی ہمارے گروپ کا حصہ ہیں، اور انہی کی راہ دیکھی جا رہی ہے۔
ان کی آمد تقریباً 10 بجے ہوئی اور حال چال پوچھنے کے بعد ناشتے کی میز پر وادئ سوات کے 3 روزہ ٹؤر کی منصوبہ بندی کی گئی۔ سفر کے لیے سوات کے 3 مقامات زیرِ غور آئے جن میں مالم جبہ، مرغزار کے اردگرد کی پہاڑی درے اور گبین جبہ کے خوبصورت میدان شامل تھے۔ گروپ بضد تھا کہ سوات کے کسی ایسے مقام کی سیر کی جائے جو ان کے لیے نئی ہو یا پھر جس کے بارے میں زیادہ تر لوگوں کو خبر ہی نہ ہو۔
کافی سوچ بچار کے بعد ٹؤر کے لیے مٹہ سوات سے 20 کلومیٹر دُور جنت نظیر سیاحتی مقام ’گبین جبہ‘ کو چُنا گیا جسے چند برس قبل ہی محکمہ سیاحت نے دریافت کیا تھا۔ گروپ کے ساتھ گفت و شنید کے بعد یہ طے پایا کہ ہم ٹھیک 11 بجے وادئ سوات کی خوبصورتی سمیٹنے نکلیں گے۔
سفر شروع ہوا، مردان سے ہوتے ہوئے مالاکنڈ کے پاس پہنچے تو غروبِ آفتاب کے دلکش نظارے نے رکنے پر مجبور کردیا۔ تھوڑی دیر رکنے اور تصاویر لینے کے بعد ہم جی ٹی روڈ پر پاکستان کے سب سے بڑے بازار بٹ خیلہ سے گزرتے ہوئے اندھیری رات میں وادئ سوات میں داخل ہوئے۔
پاکستان کی حسین وادیوں میں شمار ہونے والی وادئ سوات اپنی منفرد خوبصورتی، بلند و بالا برف پوش چوٹیوں، آبی جھرنوں اور جابجا بکھرے خوبصورت اور دلفریب مرغزاروں کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔
سوات کو جہاں مِنی سوئٹزرلینڈ کا لقب ملا ہوا ہے وہیں یہ تاریخی اعتبار سے ہمیشہ ہی پاکستان کی دلکش وادیوں میں منفرد اور اعلیٰ مقام کی حامل رہی ہے۔ والئ سوات عبدالودود اورنگزیب کی ریاست رہنے والی اس وادی میں آپ جہاں بھی چلے جائیں، فطرت کے ایک نئے اور منفرد حُسن کو اپنا منتظر پائیں گے۔
سوات میں پہلی رات کے قیام کے لیے دریائے سوات کے کنارے فضا گھٹ کے مقام پر ایک مشہور مقامی ہوٹل کا رخ کیا گیا۔
عشائیے کی میز پر اگلے دن کا پلان ترتیب دیا گیا۔ چونکہ ہمارے پاس ایک ہی دن تھا اور اگلے دن واپس لوٹنا تھا اس لیے صبح سویرے گبین جبہ کی طرف روانہ ہونے کا پروگرام بنا کر ہم اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔
گبین پشتو لفظ ہے جس کے معنی ’میٹھا‘ یا ’شہد‘ کے ہیں جبکہ جبہ کا مطلب ہوتا ہے ’چشمہ‘ یا ‘ٹھہرا پانی’۔ گبین جبہ پہنچتے ہی میٹھے چشمے آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
سطحِ سمندر سے 8 ہزار 471 فُٹ بلندی پر واقع گبین جبہ تک پہنچنے کے لیے یا تو کبل شموزو روڈ پر واقع گاؤں ’مٹہ‘ سے نکلنے والا راستہ لیا جاسکتا ہے یا پھر خوازہ خیلہ سے سخرہ بازار کو جاتی سڑک کا انتخاب کیا جاسکتا ہے جو گبین جبہ پر ختم ہوتی ہے، ہم نے اسی سڑک کو ترجیح دی۔
فضا گھٹ سے براستہ خوازہ خیلہ سخرہ بازار تک کا ہمارا سفر ایک گھنٹے پر محیط تھا جسے گرینڈ کیبن گاڑی پر طے کیا گیا۔
سخرہ سے ہم سوزکی پِک اپ پر سوار ہوئے جس نے ہمیں لالکو اتارا۔ اب یہاں سے یا تو پیدل آگے بڑھا جاسکتا تھا یا پھر کسی فور بائی فور گاڑی میں بیٹھ کر اپنی منزل پر آدھے گھنٹے میں پہنچ سکتے تھے۔
لالکو میں جگہ جگہ پارکنگ کی سہولت موجود تھی اور وہاں موجود دکانوں پر خوراک اور دیگر بنیادی ضروریات کا سامان بھی دستیاب تھا۔ ہم نے لالکو میں دوپہر کا کھانا اور کچھ دیر فوٹو گرافی کرنے کے بعد آگے کا سفر فور بائی فور سوزوکی پک اپ کے ذریعے طے کرنے کا فیصلہ کیا۔
لالکو اور گبین جبہ کے بیچ کی سڑک پر جگہ جگہ کام ہو رہا تھا۔ تقریباً آدھے گھنٹے کے سفر کے بعد گاڑی رُک گئی کیونکہ منزل تک پہنچنے کے لیے آگے پہیے نہیں بلکہ پیر ہی چلائے جاسکتے تھے۔
یہاں سے گبین جبہ ٹاپ کی طرف 3 راستے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک راستہ قدرے سپاٹ اور کچی سڑک کی صورت میں موجود ہے۔ یہ راستہ نئے سیاحوں اور ٹریکرز کے لیے قدرے آسان ہے، مگر ٹاپ تک پہنچنے کے لیے اس راستے پر تھوڑا زیادہ وقت لگتا ہے۔

دوسرا راستہ عمودی پہاڑی پر مشتمل ہے، اگرچہ یہاں سے جانے کا فاصلہ تو کم ہے مگر مشکل اور تھکا دینے والا ہے۔ پھر ہے تیسرا راستہ، جو سب سے زیادہ دشوار ہے کیونکہ اس راستے کے ذریعے منزل تک پہنچنا ہو تو آپ کو لالکو گاؤں کے درمیان گزرنے والی (باروائی) نہر کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے اس وادی کی خوبصورت ’پیازکو آبشار‘ تک پہنچنا ہوگا۔ اس آبشار کے قریب 3 گھاٹیاں موجود ہیں جن میں سے آپ کو ایک گھاٹی کا انتخاب کرنا ہوگا، یہاں سے گبین جبہ تقریباً 2 سے 3 گھنٹوں کی مسافت پر واقع ہے۔

ہم نے دوسرے راستے کو چُنا۔ عمودی پہاڑی پر چڑھائی آغاز سے ہی دشوار محسوس ہو رہی تھی لیکن بھلا ہو منزل مقصود تک پہنچنے کی تمنا اور اور آس پاس کے پہاڑوں و گھنے جنگلات کے محسور کن مناظر کا جن کی وجہ سے تھکن کا احساس ہم پر غالب نہیں آپاتا تھا۔
تقریباً 45 منٹ کی مسلسل ٹریکنگ کے بعد ہمارے قدموں نے گبین جبہ کے خوبصورت میدانوں کو چھوا۔ سرسبز پہاڑی میدانوں کو بادلوں نے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔ تھکن اس قدر زیادہ تھی کہ کچھ دیر تک تو ہمیں گبین جبہ میں نصب خیموں کے علاوہ کچھ نظر ہی نہ آیا۔
لیکن کچھ ہی دیر میں گروپ کے ساتھیوں کی مایوسی میں اچانک اضافہ ہونا شروع ہوا کیونکہ گبین جبہ کی دلکش خوبصورتی گہرے بادلوں کی وجہ سے کھل کر سامنے نہیں آ پارہی تھی اور وہ دلکش مناظر کو کیمروں میں قید کرنے سے قاصر تھے، لیکن یہ مایوسی کچھ ہی دیر بعد اس وقت اچانک سے کہیں دُور بھاگ گئی جب بادلوں کو ہم پر رحم آگیا اور وہ آہستہ آہستہ چھٹ گئے۔
ہمارے سامنے اپنے منفرد حُسن پر نازاں سرسبز پہاڑی میدان تھے۔ ان خوبصورت میدانوں اور مرغزاروں کی وسیع چراہ گاہیں، مٹہ، لالکو اور یونین کونسل سخرہ کے مقامی باشندوں کے مویشی جانور نظاروں میں مزید رنگ بھر دیتے ہیں۔
یہاں سیاحوں کے قیام کے لیے کیمپنگ کی سہولت بھی دستیاب ہے، جبکہ اس کے علاوہ ایک چھوٹا سا ریسٹورنٹ بھی یہاں موجود ہے جو مناسب داموں پر قیام و طعام کی سہولیات فراہم کررہا ہے۔
خیبر پختوانخوا کے محکمہ سیاحت کی طرف سے سیاحوں کے قیام کے لیے اعلیٰ معیار کے حامل کیمپنگ پوڈز بھی بنائے گئے ہیں۔ آپ 2500 سے 4500 روپے کا کرایہ ادا کرکے یہاں رات رک سکتے ہیں۔ سیاح ان کیمپنگ پاڈز کی بکنگ آن لائن بھی کرواسکتے ہیں۔
برف پوش پہاڑوں کے درمیان واقع گبین جبہ کے یہ میدان سطح سمندر سے 11 ہزار 500 فٹ بلندی پر واقع درال جھیل اور درال پاس کے ٹریک کا نقطہ آغاز بھی تصور کیے جاتے ہیں۔
یہاں سے تقریباً 2 دن کی دشوار گزار ٹریکنگ کے بعد آپ خوبصورت درال جھیل تک پہنچ سکتے ہیں۔ جو سیاح درال جھیل دیکھنا چاہتے ہیں تو میں انہیں یہ مشورہ دینا چاہوں گا کہ وہ ایک رات کا قیام گبین جبہ میں کریں اور علی الصبح یہاں سے درال جھیل کے لیے روانہ ہوں۔
15 جولائی کے بعد اگست اور ستمبر کے مہینے ہی درال جھیل کی ٹریک کے لیے مناسب رہیں گے۔ ان مہینوں میں بھی ٹریکرز حضرات کو کم ازکم 4 گلیشیرز سے گزر کر جھیل تک پہنچنا پڑتا ہے جبکہ باقی مہینوں میں جھیل کے راستے میں کم از کم 18 گلیشیرز کو عبور کرنا پڑتا ہے جو کسی بھی طور پر آسان کام نہیں۔
جھیل تک پہنچنے کے لیے جو راتیں سفر میں آئیں انہیں چرواہوں کے غیر آباد مکانوں میں گزارا جاسکتا ہے، یا پھر اس کے آس پاس خیمے گاڑھے جاسکتے ہیں۔ درال جھیل تک پہنچنے کے لیے مقامی گائیڈ 4 دن کی خدمات کے 4 ہزار سے 5 ہزار روپے طلب کرتے ہیں۔ لیکن یہ یاد رکھیے اس پورے سفر میں گائیڈ کا ہونا ناگزیر ہے، ورنہ بھٹکنے کا پورا پورا خدشہ ہے۔
گبین جبہ سے صرف 10 منٹ کی مسافت پر ایک چشمہ موجود ہے جسے مقامی پشتو زبان میں ’چڑسر چینہ‘ پکارا جاتا ہے۔ مقامی باشندوں کے مطابق یہ میٹھا پانی شفایابی کی طاقت رکھتا ہے۔
تقریباً ایک گھنٹے کی ٹریکنگ کے بعد ہم لالکو بازار پہنچ گئے جہاں پر گاڑی پہلے سے ہی ہماری منتظر تھی۔ چونکہ اس علاقے میں غیر مقامی سیاحوں کی تعداد بہت کم آتی ہے اس لیے جگہ جگہ پر مقامی لوگ ہمارا بھرپور استقبال کرتے رہے اور کھانے پینے کی دعوت بھی دیتے رہے۔
رات کے 8 بجے ہم اپنے ہوٹل پہنچے۔ اس تھکا دینے والے سفر کے بعد گروپ کے کئی ساتھی آرام کرنے اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے، مگر میں اور میرا دوست بلال دریائے سوات کے کنارے بائی پاس روڈ پر فیس بک کے کچھ دوستوں کے ساتھ آئس کریم سے لطف اندوز ہونے کے لیے روانہ ہوگئے۔ رات دیر تک دوستوں کے ساتھ گپ شپ جاری رہی پھر ہمیں بھی نیند نے پریشان کرنا شروع کردیا اور یہ محفل یہیں اختتام پزیر ہوئی۔
اگلے دن ہمیں فجر کے وقت اسلام آباد کے لیے نکلنا تھا، لہٰذا چند گھنٹوں کی نیند کے بعد جاگ گئے اور طلوع آفتاب سے پہلے ہم سوات ایکسپریس وے پر پہنچ گئے۔ جس کے بعد براستہ سوات ایکسپریس وے واپسی کا سفر شروع کیا گیا۔ چکدرہ سے کرنل شیر خان انٹر چینج اور پھر وہاں سے 81 کلو میٹر طویل سوات ایکسپریس موٹر وے پر کام جاری تھا۔
لیکن سوات اور بونیر کو ملانے والے پہاڑی سلسلے کے درمیاں بنے خوبصورت ٹنل اور صوابی و بونیر سے گزرتے موٹروے کے سفر نے اس 3 روزہ مختصر ٹرپ کو مزید پُرلطف بنا دیا۔
اس موٹروے پر موجود واحد پیٹرول پمپ سے گاڑی کا ٹینک فُل کروایا گیا، اور پھر ہم براستہ ہزارہ موٹر وے حویلیاں اور پھر اسلام آباد پہنچ گئے۔
گبین جبہ کا سفر کرنے والے سیاحوں کے لیے ہدایات اور گزارشات
گبین جبہ اور لالکو کے لوگ انتہائی ملنسار اور مہمان نواز ہیں۔ راستے میں اگر کوئی مسئلہ درپیش آجائے تو کسی بھی راہ چلتے مقامی باشندے سے رہنمائی حاصل کرنے میں ذرا بھی دقت محسوس نہ کریں۔
لالکو میں چند ہوٹلز موجود ہیں، جہاں پر آپ مناسب کرائے پر رات ٹھہر سکتے ہیں۔
گبین جبہ ٹاپ پر مقامی آبادی کی طرف سے سیاحوں کے لیے کیمپنگ کی سہولت فراہم کی جاتی ہے، اس کے علاوہ محکمہ سیاحت کے کیمپنگ پاڈز میں بھی رہائش اختیار کی جاسکتی ہے۔
گرم کپڑے یا چادر وغیرہ لازماً ساتھ لائیں کیونکہ یہاں موسم بدلتے دیر نہیں لگتی۔
صرف قدرتی نظاروں کی تصاویر کھینچی جائے اور مقامی باشندوں بالخصوص خواتین و بچوں کی تصاویر کھینچنے سے گریز کیجیے۔
موبائل اور کیمرے کا استعمال احتیاط سے کیجیے کیونکہ آپ کو چارجنگ کے حوالے سے مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
گبین جبہ کے ہرے میدانوں کا فطری سبز حسن برقرار رکھنے کے لیے وہں کوڑا کرکٹ پھینکنے سے گریز کریں۔ ویسے بھی سیاحتی مقامات کی صفائی کی ذمہ داری ہم سب پاکستانیوں پر عائد ہوتی ہے۔

امید ہے کہ جلد سیاح خواتین و حضرات گبین جبہ کے خوبصورت میدانوں کے حسن کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے لیے رخت سفر باندھیں گے۔

عظمت اکبر سماجی کارکن اور ٹریپ ٹریولز پاکستان کے سی ای او ہیں۔ آپ کو سیاحت کا صرف شوق ہی نہیں بلکہ اس کے فروغ کے لیے پُرعزم بھی ہیں۔

بشکریہ ڈان نیوز ویب سائٹ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں