654

احسان اور قیمت

عبدالرحیم اور اللہ لوک بچپن کے دوست تھے ان کے گھر ایک ہی گاؤں میں قریب قریب تھے دونوں اکٹھے سکول آتے جاتے،واپس آکر کھیلتے کودتے۔ چھٹی والے دن پہلے تو قریبی جنگل سے لکڑیاں لاتے پھر سہہ پہر کوگرمیوں کے دنوں میں نہانے کے لیے نالے پر چلے جاتے۔غرض کہ تھوڑی عمر میں ان دونوں کی دوستی مثال بن گئی انہوں نے ایک دوسرے کے بغیر کھانا نہ کھانا شروع کردیا۔دونوں کی دوستی کی وجہ سے ان کے گھروالون کے تعلقات بھی آپس میں رشتہ داروں جیسے ہوگئے۔
وقت کاپنچھی پرلگائے اڑتارہا اللہ لوک نے پرائمری کے بعد سکول چھوڑدیا جبکہ عبدالرحیم نے مڈل کاامتحان اچھے نمبروں سے پاس کرلیا۔اب دونوں نے مزدوری کرنے کی ٹھان لی۔اللہ لوک کو کچھ عرصہ بعد سعودی عرب کاویزہ مل گیا اور وہ اپنے دوست کے ساتھ بہت سے وعدے کرکے پردیس چلاگیا۔ ادھر عبدالرحیم نے بھی اپنی زندگی کی گاڑی کوچلانے کے لیے گاؤں میں مزدوری کرنی شروع کردی۔ ایک تو چالیس پچاس سال پہلے اس سارے علاقے کے لو گوں کے حالات بہت ابتر تھے۔سب کاانحصار بس کھیتی باڑی پر تھا۔ ہرگھر میں گائے،بھینس،بکریاں اور بھیڑیں موجود ہوتی تھیں۔سب لو گ کینہ،ریاکاری،منافقت اور برادری ازم کے جھوٹے کھوکھلے نعروں سے کوسوں دور تھے پانچ چھ کلومیٹر کے علاقے میں رہنے والے لوگ خونی رشتہ داروں سے زیادہ محبت ور احساس رکھتے تھے خوشی اور غم کے موقع پر ساراعلاقہ گھروالوں کے غم،خوشی میں ایسے شریک ہوتاتھا جیسے یہ ان سب کااپنا غم،خوشی ہو۔لوگ رنگ برنگی ڈشوں کی بجائے مختلف اقسام کی کڑیاں (سوپ) بناتے اور مزے لے لے کرکھاتے تھے۔ساگ بھی سب کامن بھاتاکھاجا تھا۔ گھرو ں میں چونکہ دودھ والاکوئی نہ کوئی جانور ضرورہوتاتھا لہذا سب مٹھا (دہی) اور مکئی کی روٹی شوق سے کھاتے تھے،لسی پیتے اور دیسی گھی کی چوری کھاتے،سخت مشقت کرتے زندگی کے دن ہنسی خوشی گزارتے تھے۔
عبدالرحیم نے کام تو کرناشروع کردیا لیکن مہینے بھر میں کچھ دن ہی کام ملتاتھا چونکہ سستازمانہ تھا پھر زمنیدارہ بھی زندگی کی گاڑی چلانے میں کسی نہ کسی حد تک مددکردیاکرتاتھا لہذازندگی کسی نہ کسی طرح چلتی رہی۔اللہ لوک نے بیرون ملک جاتے ہی گھر والوں کو خط لکھا ساتھ ہی اپنے جگری دوست عبدالرحیم کو بھی نہیں بھولا۔ خط پاکر عبدالرحیم اور اس کے گھر والے پھولے نہ سمائے۔ اگلی بار پردیس سے آنے والے بندے کے ہاتھ اللہ لوک نے اپنے دوست کے لیے پرفیوم اور کچھ دوسری چیزیں بھیج کر اپنی اٹوٹ دوستی کا ثبوت دیا۔ جب اللہ لوک تین چار سال بعد گھر واپس آیا تو پورے گاؤں میں عید کاساسماں تھا ہر کوئی خوشی سے اللہ لوک کے گھر والوں کومبارکباد دے رہاتھا۔لیکن سب سے زیادہ خوشی عبدالرحیم اور اس کے گھر والوں کوتھی کیوں نہ ہوتی وہ ان کے بیٹے کاجگری دوست جوتھا۔ دوسرے تیسرے دن عبدالرحیم نے اپنے دوست کی گھر میں شاندار دعوت کی۔ دیسی مرغ، دیسی گھی،دہی،چاول،چٹنی اور بہت سی ڈشیں وہیں عبدالرحیم کے ابو نے اللہ لوک سے اپنے دوست کو بھی باہر لے جانے کے لیے کہا اللہ لوک نے وعدہ کرلیا کہ وہ ضرور اپنے دوست کو اپنے ساتھ باہر لیجائے گا۔
اللہ لوک کی کاوش سے عبدالرحیم بھی بیرون ملک چلاگیا۔اور تقریبا ً تین سال تک وہاں کام کرتارہا گھر واپس آیا تو شادی کے بندھن میں باندھ دیاگیا۔دوسری طرف اللہ لوک کی بھی شاد ی ہوگئی۔ دونوں ایک دوسرے کی شادی کے دوست بھی بنے اور یوں یہ دوستی مزید مضبوط ہوگئی۔
بعد میں عبدالرحیم تو دوبارہ بیرون ملک نہ جاسکا لیکن اللہ لوک نے مسلسل کئی سال تک بیرون ملک کام کیا اور خاصا خوشحال ہوگیا حتی کہ اس نے گاؤں سے تین چار کلومیٹر دور شہر میں اپنا مکان بھی بنالیا اور بال بچوں سمیت وہاں منتقل ہوگیا لیکن اس دوران بھی اس نے عبدالرحیم سے ملنا، اسکی مددکرنا نہیں چھوڑا۔عید،شب برات پر وہ عبدالرحیم کے بچوں کواتنی عیدی دے دیتا کہ وہ دنگ رہ جاتا۔
پھر وہ وقت بھی آیا جب عبدالرحیم کوایک موذی مرض نے آن گھیرا اور وہ بالکل چارپائی کے ساتھ لگ گیا۔ تمام قسم کی جمع پونجی ختم ہوگئی او ر گھر میں فاقوں نے ڈیرہ ڈال لیا اب تو اس گھر میں صرف کڑی پکتی بچے پوچھتے کہ اماں آپ اور کوئی چیز کیوں نہیں پکاتیں تو دکھیاری ماں جواب دیتی بیٹا آپ کے ابو کوڈاکٹر نے باقی چیزیں کھانے سے منع کیاہواہے۔ورنہ سچ تو یہ تھا کہ پانی کی کڑی،بادام کی کڑی،لسی،سونف کی کڑی روزانہ کاسالن تھا وہ محض اس لیے کہ اس ڈش پر سب سے کم خرچ آتاتھا اب تو عبدالرحیم کے گھریلو حالات اس عیاشی کے بھی متحمل نہیں ہوسکتے تھے۔ ان دنوں ایسا بھی ہوا کہ دکاندار نے عبدالرحیم کو سوداسلف دینا بندکردیا کیونکہ اس یقین ہوگیاتھا کہ اگر عبدالرحیم کوکچھ ہوگیاتو میرے پیسے کون دے گا؟
اس آزمائش کی گھڑی میں بھی اللہ لوک نے دوستی کی لاج رکھی اس نے دکاندار سے کہا کہ جتنے مرضی پیسے بن جائیں عبدالرحیم کے گھر والے جو سوداسلف مانگیں دیتے رہو سب پیسے میرے ذمے ہیں یہ میں اداکروں گا۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے عبدالرحیم کی آزمائش ختم کی اور وہ آہستہ آہستہ صحت مند ہوکر محنت مزدوری کرنے لگا۔اس نے سب سے پہلے اپنے دوست اللہ لوک کاقرض ختم کیا لیکن سیانے سچ کہتے ہیں کہ قرض سے بھی بڑا بوجھ احسان کاہوتاہے اور اسے اتارتے اتارتے انسان کی زندگی گزرجاتی ہے۔
اللہ لوک کے احسانوں کے بوجھ تلے دبے عبدالرحیم اور اس کے گھروالوں نے بدلہ چکانے کی ہرممکن کوشش کی۔ کٹائی کے دنوں میں عبدالرحیم اللہ لوک کے گھر چلاجاتاا ور رات دن ایک کرکے اس کی فصل ٹھکانے لگا کرہی واپس آتا۔ مکان بننے لگے تو عبدالرحیم پھر حاضر تھا، بنیاد سے لے کر چھت ڈالنے، پلستر سے لیکر رنگ روغن اور چاردیواری بننے تک وہ بوتل کے جن کی طرح حاضر رہتا۔ گو کہ اللہ لوک نے اسے کبھی اس بات کااحساس نہیں ہونے دیاتھا کہ اس کے ساتھ مشکل وقت میں کوئی احسان کیاتھا لیکن احسان خود ہی ایسی چیز ہے جوبھلائے نہیں بھولتی اور نہ اداکئے اداہوتی ہے۔
آج بھی اللہ لوک اور عبدالرحیم کے گھروالوں کاپیار، محبت اور خلوص ایک مثال ہے۔ان کی دوستی ان کی اولادوں تک منتقل ہوچکی ہے وہ ایک دوسرے کے خوشی غم میں خونی رشتہ داروں کی طرح شامل ہوتے ہیں۔ گو کہ عبدالرحیم نے بھی شکوہ نہیں کیا لیکن اپنی زندگی میں اس نے اپنے دوست کے احسان کی بڑی ہی بھاری قیمت چکائی ہے۔
یہ صرف اللہ لوک /عبدالرحیم کی کہانی نہیں ہے ہر جگہ ہرکہانی میں ایسے ہی ہوتاہے احسان کی قیمت تو چکانی ہی پڑتی ہے کیونکہ احسان کابوجھ براہ راست ضمیر پرپڑتاہے اور بڑھتے بڑھتے ایسا تناور درخت بن جاتاہے کہ اس کی شاخیں کاٹتے اسے سمیٹنے میں زندگی گزرجاتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں