1,845

انسانی زندگی اور جنگلات کی اہمیت

انسانی زندگی میں جنگلات کی اہمیت کا کوئی نعم البدل نہیں کیونکہ جنگلات ماحول کو صاف ستھرا بنانے میں انتہائی اہم ہیں۔ آکسیجن کی کمی کو پورا کرتے ہوے ہر جاندار کو زندگی بخشتے ہیں بارشوں کا سبب بنتے ہیں سیلابوں کو روکتے ہیں ایک بڑا درخت 2 ٹن کے ائیر کنڈیشنڈ کے برابر ٹھنڈک پیدا کرتا ہے حتیٰ کہ ہماری زندگی جنگلات کے دم سے ہے۔قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے جنت یعنی باغوں کا ذکر کیا ہے جس کے نیچے نہریں بہتی ہیں مطلب باغات انسانوں کے لیے نہایت اہم ہیں ۔ پیارے مصطفیٰ صل اللہ علیہ والہ و سلم نے بھی جنگلات کی افادیت کے پیش نظر جنگوں میں درخت کاٹنے پر پابندی لگائی تھی پودا لگانا صدقہ جاریہ ہے۔
گزشتہ چند برسوں میں اس حوالے سے دنیا بھر میں ایک نئی حساسیت نے جنم لیا ہے جس کے اثرات پاکستان میں بھی دیکھنے میں آ رہے ہیں بڑھتی ہوئی انسانی آبادی کی وجہ سے جنگلات کا بے دریغ کٹاو¿ جاری ہے اور اسی وجہ سے قرہ ارض پر حیاتیاتی تنوع کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ بڑھتی آبادی کا ذکر ہوگیا ہے تو اس حوالے سے اتنا کہنا چاہوں گا کہ پاکستان میں بڑھتی آبادی کا اڑدھا ملکی وسائل نگلتا جا رہا ہے پڑھے لکھے ہیں یا ان پڑھ بس بچے پیدا کرنے کا مقابلہ ہے اگر پاکستان کو سرسبز اور خوشحال دیکھنا ہے تو 2 نہیں تو 3 بچوں کی حد مقرر کر دی جائے چوتھا بچہ ہونے پر میاں بیوی جیل میں ہونے چاہئیں میری یہ بات ہوسکتا ہے کچھ لوگوں کو ناگوار گزرے مگر یہ ایک کڑوی حقیقت ہے اس بارے بالآخر سوچنا ہو گا۔
بے دریغ بڑھتی آبادی جنگلات کی کٹائی کا سبب بن رہی ہے حکومت کو چاہیے کہ اس طرف بھی توجہ دے. نئی کالونیاں اور ٹاو¿ن بنانے والے مافیاز کو بھی لگام دی جائے 20 بیس سال ہو گئے ہیں سربز سونے اگلتی لاکھوں ایکڑ زمینیں اور کروڑوں درخت کاٹ کر دیواریں چن دی گئیں مگر آج تک نہ وہاں لوگ آباد ہو سکے اور نہ ہی وہاں سے کوئی جنس پیدا ہو سکی کھربوں کا نقصان اپنی جگہ اور ماحول کی آلودگی اوپر سے عوام کو جھیلنی پڑ رہی ہے. اس سلسلے میں کثیر المنزلہ عمارتیں اور کراچی کی طرح فلیٹس بنوائے جائیں تاکہ آبادی کے لیے زمین کا استعمال کم ترین سطح پر کیا جائے یہ کہاں کی عقلمندی ہے کہ درختوں کو کاٹ کر سیمنٹ کے پہاڑ کھڑے کر دیے جائیں بقول پروین شاکر
کل رات جو ایندھن کے لیے کَٹ کے گرا ہے
چڑیوں کو بڑا پیار تھا اس بوڑھے شجر سے
پچھلی کئی دہائیوں سے ملک میں مختلف جمہوری اور مارشلائی حکومتیں آئیں مگر ماحولیات کے نازک اور حساس معاملے میں کوئی تبدیلی نہ لا سکے جو بھی آیا بس پیسہ بنانے کے لیے ہی آیا بڑے بڑے پراجیکٹس میٹروز موٹرویز بنائے جن کے عوض کِک بیکس کمیشنیں چلتی رہیں اور عوام کے حق پر ڈاکہ ڈالتے رہے آج تک کسی نے یہ نہ سوچا کہ مسندِ اقتدار پر عوام اس آس امید پر بٹھاتی رہی کہ ان کی بھلائی اور خوشحالی کے لیے کوئی ڈھنگ کا کام کیا جاتا الٹا عوام کو الّو بنا کر ملکی خزانوں پر ہاتھ صاف کرتے رہے کبھی جمہور یت کا ح±ر بن کر تو کبھی قائد اعظم ثانی بن کر بہتی گنگا میں ہاتھ صاف کرتے رہے. ابھی نئی حکومت تحریک انصاف کی بنی ہے ماحولیات کو ٹھیک کرنے کا عزم کیے ہوے ہے اچھی بات ہے دیر آید درست آید۔
ملک امین اسلم کو ماحولیات کا قلم دان سونپا گیا ہے انہوں نے کے پی میں بلین ٹری سونامی کا اہم سنگ میل عبور کیا پی ٹی آئی کی حکومت بنانے میں ان کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا. کے پی میں جہاں دھوڑ اٹھتی تھی ٹمبر مافیا حاوی تھا اب وہاں اربوں درخت لگائے جا چکے ہیں گو کہ پورے درخت ابھی نہیں بنے مگر پھر بھی ماحول میں خوشگوار تبدیلی محسوس کی جا سکتی ہے. اب اسی حکومت میں 30 جنوری آ رہا ہے جس کو جنگلات کا عالمی دن کہا جاتا ہے تو میری حکومت سے استدعا ہے 30 جنوری کو پورے پاکستان میں اس موقعہ کی مناسبت سے سیمینار کروائے جائیں جس میں عوام کو جنگلات کی لازوال اہمیت اور فوائد سے روشناس کرایا جائے حکومت نے قبضہ مافیا سے جو زمینیں واگزار کروائی ہیں ان پر جنگلات اگائے جائیں۔ نہروں نالوں روڈز گرین بیلٹ کے ساتھ ساتھ اربوں درخت لگائے جا سکتے ہیں اور ان کی دیکھ بھال کے لیے لاکھوں لوگوں کے لیے روزگار کے دروازے بھی کھل سکتے ہیں۔
ماہرین بتاتے ہیں بڑے اور پر ہجوم شہروں میں درختوں کا ہونا ضروری ہے تاکہ موسمی تغیرات climate change کی وجہ سے ہونے والی گرمی اور ماحول کی آلودگی میں کمی آئے. پاکستان کی صورت حال کچھ ایسی ہے جہاں پر جنگلات کی شرح 4 فیصد سے کم ہوتے ہوتے اب 2 فیصد سے بھی کم رہ گئی ہے حالانکہ عالمی مسلمہ معیارات کے مطابق کسی بھی ملک کے کم از کم 25 فیصد رقبے پر جنگلات کا ہونا ضروری ہے. ہماری معیشت اور معاشرت پانی اور درختوں کی کمی کی وجہ سے شدید مشکلات سے دوچار ہے بےدریغ درخت کاٹنے کی وجہ سے فضا میں موجود ozone کی تہہ کمزور پڑتی جارہی ہے جس سے کینسر جیسے مہلک امراض میں حولناک اضافے دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ہمارے لیے کتنی تشویش کی بات ہے آنے والے سالوں میں ہمارے ساتھ کیا ہونے والا ہے کسی کو کوئی پرواہ نہیں۔
کہاں گئیں وہ تتلیاں جو ماحول کو رنگوں سے بھر دیتی تھیں اور وہ جگنو جو راتوں کو جگمگاتے تھے خوبصورت رنگ برنگے پرندے کچھ دیار غیر رخت سفر ہوے تو کچھ مار دیے گئے. بارشیں ہم سے روٹھ گئیں وہ بھیگا بھیگا ساون وہ کالی کالی گھٹائیں کڑکتے بادل لسکَتی بجلیاں وہ آسمان پر پھیلی کہکشائیں آنکھوں کو کتنی بھلی لگتی تھیں یہ قدرتی نعمتیں ہماری حکومتوں نے ہم سے چھین لیں ہمارے مستقبل کی رنگینیوں کو محفوظ رکھنے کے لیے کچھ بھی نہ کیا۔
یہ امر بالکل واضع ہے کہ آج اگر ہم اپنے ماحول کی بقا کے لیے اٹھ کھڑے نہ ہوے تو ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل معدوم نظر آتا ہے آج ہمیں یہ عہد کرنا ہے کہ ہم اپنے ماحول کو زیادہ سے زیادہ درخت لگا کر محفوظ بنائیں گے. ایک زندہ قوم یقیناً عزم مصمم کی بدولت تمام اہداف حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اگر ایسا نہ کر سکے تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی ۔
جب راستے میں کوئی سایہ نہ پائے گا
یہ آخری درخت بہت یاد آئے گا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں